aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"چھٹا بیٹا" اوپندر ناتھ اشک کا لکھاہوا ڈرامہ ہے۔ یہ ڈرامہ 1946 میں ان کے مجموعے "ازلی راستے" میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد 1981 میں باقاعدہ کتابی شکل میں پیش کیا گیا۔ اشک نے یہ ڈراما اپنی دوسری شادی کی متوقع ناکامی کے غم کو بھلانے کے لیے لکھا تھا، اس لیے اس ڈرامے میں مزاح کا عنصر غالب ہے، اس ڈرامے کے حوالے سے راجندر سنگھ بیدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہ ڈراما انھوں نے اپنے ہی والد اور اپنے بھائیوں پر لکھا تھا۔ ڈرامے کے شروع میں ڈاکٹر اطہر پرویز صاحب کا مبسوط دیباچہ بھی شامل ہے۔
اوپندر ناتھ اشکؔ پریم چند کے نامور معاصرین میں سے ایک ہیں اور پریم چند سے خاص طور پر متاثر ہیں۔ ان کے افسانوں پر ایک لمبے عرصے تک ناصحانہ اور اخلاقی رنگ غالب رہا۔ پریم چند کے افسانوں میں بھی یہی صورت تھی۔ مگر وہ آخر خار اس سے باہر آئے لیکن اشکؔ ایک طویل عرصے تک اس سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ اپنے ملک کی معاشرت پر وہ گہری نظر ڈالتے ہیں اور اس کی برائیوں پر ان کی نظر جم کر رہ جاتی ہے اور ان کے اصلاحی افسانے وجود میں آتے ہیں۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست بھی داخل ہے لیکن یہاں بھی انداز اخلاقی اور اصلاحی ہے۔
اشکؔ نے ایک طویل مدت تک اپنے تمام تر وقت کو افسانہ نگاری پر صرف کیا۔ اس سے فن پر ان کی گرفت مضبوط ہوگئی اور زبان میں زیادہ روانی آگئی۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی منفرد اسلوب نہیں اور اردو افسانے پر وہ کوئی گہرا نقش نہیں چھوڑ سکے لیکن اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اپنے زرخیز قلم سے انہوں نے اردو افسانے کے ذخیرے میں بہت اضافہ کیا۔ ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں، ڈاچی، کونپل، قفس، ناسور وغیرہ اور ان مجموعوں کے بیشتر افسانوں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا گیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets