aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
امیر مینائی اردو کے مشہور و معروف شاعر و ادیب تھے۔آپ 1829ء میں شاہ نصیر الدین شاہ حیدر نواب اودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ،حضرت شیخ مخدوم شاہ میناؒ کی اولاد میں تھے اسی نسبت سے مینائی مشہور ہوئے۔درسی کتب مفتی سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے پڑھیں۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی شاعر ی کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔منشی مظفر علی اسیرؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔غالبؔ ،آتشؔ ،ناسخؔ اور انیسؔ ودبیرؔ کی صحبتوں سے بھی فیضیاب ہوتے رہے۔لگ بھگ پچاس برس کی عمرمیں اپنے استاذ اسیر ؔ کے توسط سے واجدعلی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی ۔ اسی دوران لکھنؤ کے مشاعروں کے لیے طرحی غزلیں کہیں اور نواب واجد علی شاہ کی شان میں قصائد کا ایک مجموعہ ’’غیرت بہارستان ‘‘مرتب کیا لیکن 1857 میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس ہنگامے میں لکھنؤ میں واقع امیرمینائی کا پورامحلہ آگ کی نذرہوگیا ۔اس میں ان کا دیوان اور دوسری تصانیف بھی جل گئیں۔ بے سروسامانی کے عالم میں امیرؔ کا کوری پہنچے، وہاں تقریباًایک سال قیام رہا۔دوران قیام محسن کا کوروی سے ملاقاتیں رہیں۔اس دوران ان کی شاعری کی شہرت رامپور کے دربار تک پہنچ چکی تھی۔ امیرؔ نے بھی رامپور کے لیے رخت سفر باندھا جہاں ان کی بڑی قدر دانی ہوئی۔ یہی امیر کی شاعری کے عروج کا زمانہ تھا۔امیرؔ مینائی کافی پڑھے لکھے انسان تھے۔ مختلف علوم وفنون پرانھیں عبور تھا۔ اردو زبان کے ساتھ عربی اور فارسی میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ زیر نظر کتاب "دبدبہ امیری" امیر مینائی کی مکمل سوانح حیات ہے۔جس میں ان کے حالات زندگی سے لیکر، شاعری، تلامذہ، تصانیف کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ، ان کی شاعری کا نمونہ کلام بھی پیش کیا گیا ہے۔