aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کشور ناہید پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ ایک حساس دل کی مالک ہیں، ملک کے سیاسی اور سماجی حالات پر اُن کی گہری نظر ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ۱۹۶۸ میں منظر عام پر آیا تھا جس کی خوب پذیرائی ہوئی تھی۔اس کے بعد متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ زیر نظر کلیات ان کے آٹھ مجموعوں پر مشتمل ہے ۔ ان میں غزلیں، نظمیں، قطعات اور دوھے وغیرہ شامل ہیں۔ محترمہ ناہید کی ان تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لفظوں اور ترکیبوں کی تراش پر توجہ بھرپور دی گئی ہے، لہجے میں گھلاوٹ ، تفکر اور دلسوزی ہے۔ مجموعہ کا مطالعہ کرنے سے حالات حاضرہ اور سماج کے بدلتے رخ کا اشارہ ملتا ہے ۔
نام کشور ناہید اور تخلص ناہید ہے۔ ۳؍فروری ۱۹۴۰ء کو بلند شہر(یوپی) میں پیدا ہوئیں۔ایم اے (معاشیات) پاس کیا۔محکمہ اطلاعات ونشریات کے ادبی مجلہ’’ماہ نو‘‘ کی چیف اڈیٹر کے منصب پر فائز رہیں۔ بعدازاں پاکستان نیشنل سنٹر ، لاہور کی ریزیڈنٹ ڈائرکٹر رہیں۔ ڈائرکٹر مرکزی اردو سائنس بورڈ، لاہور کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ ا ن کی تصانیف کے چند نا م یہ ہیں: ’’لب گویا‘‘(غزلیات)، ’’بے نام مسافت‘‘(نظمیں)، ’’گلیاں،دھوپ،دروازے‘‘(نظمیں، نثری نظمیں ،غزلیں)، ’’فتنہ سامانی دل‘‘، ’’علامتوں کے درمیاں‘‘، ’’سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ‘‘، ’’ناوک دشنام‘‘، ’’عورت، خواب اور خاک کے درمیان‘‘، ’’خیالی شخص سے مقابلہ‘‘، ’’بری عورت کی کتھا‘‘(خودنوشت حالات زندگی)، ’’نازائیدہ بیٹی کے نام‘‘، ’’شناسائیاں، رسوائیاں‘‘۔ ’لب گویا‘ پر ۱۹۶۹ء کا آدم جی ادبی انعام ملا۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حسن کارگردگی کے تمغے سے نوازا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:344
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets