aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو کے پہلے صاحب دیوان ریختی گو شاعر ہاشمی بیجاپوی ایک مادر زاد نابینا شاعر تھے۔ زیر نظر ان کی ریختیوں کا دیوان ہے، اسی لئے کچھ لوگ ان کو ریختی کا موجد قرار دیتے ہیں۔ آخر میں فرہنگ بھی موجود ہے۔ اس دیوان کو ڈاکٹر حفیظ نے مرتب کیا ہے۔ دیوان کے شروع میں مقدمہ ہے، جس میں مرتب نے ہاشمی بیجاپوری کے کلام کی خصوصیات پر گفتگو کی ہے، اور ان کے کلام کی وقعت کو آشکار کیا ہے۔ اس دیوان میں دکنی تہذیب و تمدن سے متعلق وقیع اشعار شامل ہیں، عورتوں کے جذبات و احساسات کو بیان کیا گیا ہے، عورتوں کے لباس، زیور، آرائش و زیبائش، رفتار و گفتار، کو اشعار میں بخوبی پیش کیا گیا ہے، زبان وبیان کی خوبیاں بھی اشعار کے مطالعے سے ظاہر ہوتی ہیں، کہاوتوں محاوروں اور عورتوں کے تکیہ کلام کو اشعار میں بخوبی استعمال کیا گیا ہے، جس سے اشعار کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
ہاشمی کا پورا نام سید میراں اور عرف میاں خاں تھا ۔ وہ ہاشمی تخلص کرتے تھے ۔ کہیں کہیں ہاشم بھی تخلص کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ ہاشمی 1635کے آس پاس بیجا پور میں پیدا ہوئے اور 1697کے آس پاس ان کا انتقال ہوا۔ ہاشمی، شاہ ہاشم مہدوی (و:1669)کے مرید تھے ۔ انہوں نے ہی اپنے نام کی نسبت سے ان کو ہاشمی کے تخلص سے نوازا تھا ۔
ہاشمی مادر زاد نابینا تھے ۔لیکن شاعری میں مناظر فطرت کے جمال کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔وہ پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے تھے اس کے باوجود ایک پر گو شاعر تھے ۔کہتے ہیں ہاشمی اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے ریختی کو باضابطہ ایک صنف کا درجہ دیا اور اپنے عہد کے نسائی محاورات اور زبان کا خوبصورتی سے استعمال کیا ۔ ان سے پہلے کسی شاعر نے عورت کو اتنی تفصیل سے اپنی شاعری کا موضوع نہیں بنایا تھا۔ اسی وجہ سے ان کو اردو کا پہلا ریختی گو شاعر کہا جا تا ہے ۔انہوں نے اپنے مرشد کی فرمائش پر مثنوی یوسف زلیخا،لکھی جس کا شمار اردو کی بہترین مثنویوں میں ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دیوان ہاشمی ،کچھ قلمی بیاضیں اور قصائد ان کی یادگار ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets