aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مومن کا یہی شعر ہے جس پر غالب فدا ہوکر اپنا پورا دیوان دینے کو تیار ہوگئے تھے ۔ یہ مومن کی قدر دانی بھی بزبان غالب تھی جو دیگر اس وقت کے دیگر تمام تذکرہ نگاروں کی آرا پر بھاری پڑی اور اب تک مومن کی شاعری کو ان کے عہد کے فریم اور بعد کے فریم میں رکھ کر نظر و فکر کی مسلسل کوشش ہورہی ہے ۔ مومن کو بنیادی طور پر اردو کا خالص غزل گوشاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی غزلیات میں عاشق و معشوق کے دلوں کی کیفیات ، حسن و عشق اور نفسیات محبت کی باتیں ملتی ہیں ۔ مومن کی زبان میں سادگی اور بیان میں حسن موجود ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے تخلص کا استعمال بہت ہی پہلو دار کیا ہے جو کسی اور شاعر کے یہاں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہ کتاب دیوان مومن کی شرح ہے ۔ شروع کے دور میں ایسا ہوتا تھا کہ تجزیاتی اورتنقیدی تحریروں کو شرح کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا تھا اور اس زمانہ میں شروحات کا چلن تھااس لیے اس کتاب کوبھی اسی خانہ میں رکھاگیا ہے ۔ حالانکہ اس میں نسخوں کی تحقیق ہے ۔ حالات زندگی ہے ،مومن کے اصناف کلام کی خصوصیات ہے۔ اس کے علاوہ جملہ جہات سے کلام مومن کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے پھر ردیف وار شرح ہے ۔ الغرض دیوان مومن کی جملہ جہات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
مومن اردو کے ان چند باکمال شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی بدولت اردو غزل کی شہرت اور مقبولیت کو چار چاند لگے۔ مومن نے اس صنف کو ایسا عروج بخشا اور ایسے استادانہ جوہر دکھائے کہ غالب جیسا خود نگر شاعر ان کے ایک شعر پر اپنا دیوان قربان کرنے کو تیّار ہو گیا۔ مومن صنف غزل کے صف اوّل کے شاعر ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کی دوسری اصناف، قصیدے اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے جس میں وہ اپنی طرز کے واحد غزل گو ہیں۔ مومن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو اس کے اصل مفہوم میں برتا اور خارجیت کا اظہار داخلیت کے ساتھ کرتے ہوئے ایک نئے رنگ کی غزل پیش کی۔ اس رنگ میں وہ جس بلندی پر پہنچے وہاں ان کا کوئی مدّمقابل نظر نہیں آتا۔
حکیم مومن خاں مومن کا تعلق ایک کشمیری گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد مومن تھا۔ ان کے دادا حکیم مدار خاں شاہ عالم کے عہد میں دہلی آئے اور شاہی طبیبوں میں شامل ہو گئے۔ مومن دہلی کے کوچہ چیلان میں 1801 میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کو بادشاہ کی طرف سے اک جاگیر ملی تھی جو نواب فیض خان نے ضبط کرکے ایک ہزار روپے سالانہ پنشن مقرر کر دی تھی۔ یہ پنشن ان کے خاندان میں جاری رہی۔ مومن خان کا گھرانا بہت مذہبی تھا۔ انہوں نے عربی تعلیم شاہ عبدالقادر دہلوی سے حاصل کی۔ فارسی میں بھی ان کو مہارت تھی۔ دنیوی علوم کی تعلیم انہوں نے مکتب میں حاصل کی۔ علوم متداولہ کے علاوہ ان کو طب، رمل، نجوم ریاضی، شطرنج اور موسیقی سے بھی دلچسپی تھی، جوانی میں قدم رکھتے ہی انہوں نے شاعری شروع کردی تھی اور شاہ نصیر سے اصلاح لینے لگے تھے لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی مشق اور جذبات کے راست بیاں کے طفیل دہلی کے شاعروں میں اپنی خاص جگہ بنا لی۔ مالی لحاظ سے وہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ خاندانی پنشن ایک ہزار روپے سالانہ ضرور تھی لیکن وہ پوری نہیں ملتی تھی جس کا شکوہ ان کے فارسی خطوط میں ملتا ہے۔ مومن خاں کی زندگی اور شاعری پر دو چیزوں نے بہت گہرا اثر ڈالا۔ ایک ان کی رنگین مزاجی تھی اور دوسری ان کی مذہبیت۔ لیکن ان کی زندگی کا سب سے دلچسپ حصہ ان کے معاشقے ہی ہیں۔ محبت زندگی کا تقاضہ بن کر بار بار ان کے دل و دماغ پر چھاتی رہی۔ ان کی شاعری پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کسی خیالی نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی محبوبہ کے عشق میں گرفتار ہے۔ دہلی کا حسن پرور شہر اس پر مومن کی رنگین مزاجی، خود خوبصورت اور خوش لباس، نتیجہ یہ تھا انہوں نے بہت سے شکار پکڑےاور خود کم شکار ہوئے۔ " آئے غزال چشم سدا میرے دام میں*صیاد ہی رہا میں، گرفتار کم ہوا" ان کے کلیات میں چھ مثنویاں ملتی ہیں اور ہر مثنوی کسی معاشقہ کا بیان ہے۔ نہ جانے اور کتنے معاشقے ہوں گے جن کو مثنوی کی شکل دینے کا موقع نہ ملا ہو گا۔ مومن کی محبوباؤں میں سے صرف ایک کا نام معلوم ہو سکا۔ یہ تھیں امتہ الفاطمہ جن کا تخلص "صاحب جی" تھا۔ موصوفہ پورب کی پیشہ ور طوائف تھیں جو علاج کے لئے دہلی آئی تھیں۔ مومن حکیم تھے لیکن ان کی نبض دیکھتے ہی خود ان کے بیمار ہو گئے۔ متعدد معاشقے مومن کے مزاج کے تلوّن کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ اس تلوّن کی جھلک ان کی شاعری میں بھی ہےکبھی تو وہ کہتے ہیں، "اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل*میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا" اور پھر یہ بھی کہتے ہیں، "معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری*واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا"
مومن کے یہاں اک خاص قسم کی شانِ استغناء تھی۔ مال و زر کی طلب میں انہوں نے کسی کا قصیدہ نہیں لکھا۔ ان کے نو قصیدوں میں سے سات مذہبی نوعیت کے ہیں۔ ایک قصیدہ انہوں نے راجہ پٹیالہ کی شان میں لکھا۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ راجہ صاحب کو ان سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ ایک روز جب مومن ان کی رہائش گاہ کے سامنے سے گزر رہے تھے، انھو ں نے آدمی بھیج کر انھیں بلا لیا، بڑی عزت سے بٹھایا اور باتیں کیں اور چلتے وقت ان کو ایک ہتھنی پر سوار کر کے رخصت کیا اور وہ ہتھنی انہیں کو دے دی۔ مومن نے قصیدے کے ذریعہ ان کا شکریہ ادا کیا۔ دوسرا قصیدہ نواب ٹونک کی خدمت میں نہ پہنچ پانے کا معذرت نامہ ہے۔ کئی ریاستوں کے نوابین ان کو اپنے یہاں بلانا چاہتے تھے لیکن وہ کہیں نہیں گئے۔ دہلی کالج کی پروفیسری بھی نہیں قبول کی۔
یہ استغناء شاید اس مذہبی ماحول کا اثر ہو جس میں ان کی پرورش ہوئی تھی۔ شاہ عبدالعزیز کے خاندان سے ان کے خاندان کے گہرے مراسم تھے۔ مومن عقیدتاً کٹّر مسلمان تھے۔ 1818ء میں انہوں نے سید احمد بریلوی کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن ان کی جہاد کی تحریک میں خود شریک نہیں ہوئے۔ البتہ جہاد کی حمایت میں ان کے کچھ شعر ملتے ہیں۔ مومن نے دو شادیاں کیں، پہلی بیوی سے ان کی نہیں بنی پھر دوسری شادی خواجہ میر درد کے خاندان میں خواجہ محمد نصیر کی بیٹی سے ہوئی۔ موت سے کچھ عرصہ پہلے وہ عشق بازی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ 1851ء میں وہ کوٹھے سے گر کر بری طرح زخمی ہو گئے تھے اور پانچ ماہ بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
مومن کے شاعرانہ مرتبہ کے متعلّق اکثر نقّاد متفق ہیں کہ انہیں قصیدہ، مثنوی اور غزل پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ قصیدے میں وہ سودا اور ذوق کے مرتبہ کو نہیں پہنچتے تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ اردو کے چند اچھے قصیدہ گو شعراء میں شامل ہیں۔ مثنوی میں وہ دیا شنکر نسیم اور مرزا شوق کے ہم پلہ ہیں لیکن مومن کی شاعرانہ عظمت کا انحصار ان کی غزل پر ہے۔ ایک غزل گو کی حیثیت سے مومن نے اردو غزل کو ان خصوصیات کا حامل بنایا جو غزل اور دوسری اصناف میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ مومن کی غزل تغزّل کی شوخی، شگفتگی، طنز اور رمزیت کی بہترین ترجمان کہی جا سکتی ہے۔ ان کی محبت جنسی محبت ہے جس پر وہ پردہ نہیں ڈالتے۔ پردہ نشین تو ان کی محبوبہ ہے۔ عشق کی وادی میں مومن جن جن حالات و کیفیات سے گزرے ان کو خلوص و صداقت کے ساتھ شعروں میں بیان کر دیا۔ حسن و عشق کے خدّوخال میں انھوں نے تخیل کے جو رنگ بھرے وہ ان کی اپنی ذہنی اپچ ہے۔ ان کے اچھوتے تخیل اور نرالے انداز بیان نے پرانے اور فرسودہ مضامین کو از سر نو زندہ اور شگفتہ بنایا۔ مومن اپنے عشق کے بیان میں ابتذال نہیں پیدا ہونے دیتے۔ انہوں نے لکھنؤی شاعری کا رنگ اختیار کرتے ہوئے دکھا دیا کہ خارجی مضامین بھی تہذیب و متانت کے ساتھ بیان کئے جا سکتے ہیں اور یہی وہ طرۂ امتیاز ہے جو ان کو دوسرے غزل گو شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets