aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کرشن بہاری نورؔ اچھے غزل گو شاعر تھے۔مشاعروں میں اپنے مخصوص انداز میں شعر کہتے تھے۔ان کے شعر کہنے اور پڑھنے کا منفرد تھا۔شاعری میں انھوں نے غزل اور نظم گوئی میں طبع آزمائی کی ہے۔پیش نظر ان کا شعری مجموعہ" دکھ سکھ" ہے۔نور معاصرکلاسکی ادب کے ممتاز شاعر تھے۔ان کی شاعری میں واردات قلبی اور واردات زمانہ کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
کرشن بہاری نور 8؍ نومبر 1925 کو لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ شاعرانہ ماحول میں تربیت ہوئی ۔ بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق تھا۔ اچھے اور لائق دوستوں کی صحبت میں ان کے زوق کو اور جلا ملی۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1942 سے ہوا ، ابتدائ غزلوں پر موہن لال ماتھر بیدار تلسی رام ناز سے اصلاح لی اور بعد میں فضل نقوی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے۔ 42 سے 60 تک فضل نقوی سے اصلاح سخن لیتے رہے۔
نور صاحب محکمۂ پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف میں ملازم تھے اور ایک ذمے دار عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ نور کا پہلا شعری مجموعہ ’’دکھ سکھ‘‘ کے نام سے 1977 میں اترپردیش اردواکادمی کے مالی اشتراک سے شائع ہوا اور دوسرا "حسینیت کی چھانو میں" 1980 اور تیسرا "تپسیا" 1982 اور چوتھا "سمندر مری تلاش میں ہے" 1994 کو شائع ہوے۔ اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی ادبی خدمات پر انعام دیا۔ ٣٠ مئ ٢٠٠٣ کو نور کا حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے غازی آباد میں انتقال ہوا اور وہیں آخری رسومات ادا کی گئیں۔ نور معاصر عہد میں کلاسیکی ادب کے ممتاز شاعر تھے۔ انہوں نے تلامزہ کی ایک کثیر تعداد چھوڑی ہے. ان میں بعض ایسے ہیں جو مشق کی وجہ سے خود مرتبہء استادی کو پہنچ چکے ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets