aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"دنیا گول ہے" ابن انشاء کا لکھا ہوا سفر نامہ ہے۔ یہ سفر نامہ جون 1972 میں پہلی بار منظر عام پر آیا،اس میں فلپائم ،انڈونیشیا،سنگاپور، ملیشیا،بنکاک، ہانگ کانگ، افغانستان، ترکی،جاپان ،کوریا اور پیرس کے علاوہ امریکی ریاست ہوائی کے علاوہ سان فرانسسکو کی سیاحت کے احوال درج ہیں۔ ابن انشاء کا یہ لکھا ہوا سفر نامہ ان کے طویل ترین سفرناموں میں سے ہے، اس سفرنامے میں اکثر مقامات پر ابن انشا کے وقوف و قیام کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ ہوٹلوں اور ان کے غسل خانوں کا تذکرہ ،قدم قدم پر کفایت شعاری کا مظاہرہ ملتا ہے۔یہ سفر نامہ در اصل 1966 سے شروع ہوتا ہے جب وہ چین سے لوٹتے ہیں ۔اور پھر 1968 میں خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں چند پروگراموں کی وجہ سے ملیشیا، سنگاپور شکا گو،واشنگٹن،اور نیو یارک وغیرہ کے اسفار پر مشتمل ہے۔
نام شیر محمد اور تخلص انشا تھا۔۱۵؍جون ۱۹۲۷ء کو ضلع جالندھر میں ایک کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۶ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔۱۹۴۷ء میں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آگئے۔۱۹۵۳ء میں ایم اے(اردو) اردو کالج، کراچی سے کیا۔ابن انشا ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنف ،مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے۔ ہندی ادب کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا۔۱۹۶۵ء میں روزنامہ’انجام‘ میں ’’باتیں انشا جی‘‘ کے عنوان سے لکھتے رہے۔مطالعاتی مواد کے امور میں ابن انشا پاکستان میں یونیسکو کے نمائندے تھے۔سفرناموں، ترجموں اور شاعری پر مبنی تصنیفات اور تالیفات کا ایک وسیع ذخیرہ ابن انشا نے ہمارے ادب میں چھوڑا ہے۔۱۱؍جنوری۱۹۷۸ء کو ابن انشالندن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’چاند نگر‘،’اس بستی کے اک کوچے میں‘(شعری مجموعے)، ’بلو کا بستہ‘(بچوں کی نظمیں)، ’دنیا گول ہے‘، ’آوارہ گرد کی ڈائری‘، ’اردو کی آخری کتاب‘(مزاح)، ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘(سفرنامے)، ’سحر ہونے تک‘(ترجمہ روسی ناول)، ’انشا جی کے خطوط‘، ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:205
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets