aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
فلسفہ وجودیت نے عصر حاضر کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ انیسویں صدی او ربیسویں صدی کے مخصوص سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور فکری صورت حال نے اس کی پرورش کی ۔ وجود یت نے اپنی اصلی صورت میں کرکے گارڈ کے فلسفہ میں جنم لیا او ریہ مارسل، ہائیڈگر، یاسپرس، سارتر، کامیو کافکا وغیرہ کے ہاتھوں اپنے نقطہ عروج تک پہنچی۔ غرض یہ کہ وجودیت پسندوں کامرکز انسانی وجود اور اس کے مسائل ہیں۔ یہ مسائل انسان کے کرب، الجھن، کشاکش، بیزاری، تنہائی، علیٰحدگی، بے گانگی، خوف، دہشت، پشیمانی، پریشانی، مایوسی، محرومی، بے کسی، بے چارگی، لایعنیت، بے مقصدیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اردو کا جدید افسانہ جب موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے وجودی فکر کے تحت آیا تو اس کارنگ روپ تبدیل ہوا،اردو افسانہ اجتماعی رویے سے نکل کر انفرادی رویے کے تحت آگیا، جماعت کے بجائے فرد توجہ کامرکز بنا اور بے چہرگی، تنہائی، بے گانگی زندگی کی لایعنیت اور سب سے بڑھ کر وجود کی تلاش جیسے موضوعات عام ہونے لگے۔ یہ نئے پیچیدہ موضوعات اپنے اظہار کے لیے پیچیدگی کو ہی راہ دینے لگے اس لیے تجرید، علامت اورابہام ناگزیر ٹھہرا۔ زیر نظر کتاب میں وجودیت کی تعریف و تعارف ، وجودیت کے مضمرات، جدید اردوافسانہ کی تکنیک،اور وجودیت کے عناصر اور جدید اردو افسانہ جیسے موضوعات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets