aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پریم چند نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تو اُس دور کا ہندوستان اصلاحی اور انقلابی سرگرمیوں میں سرگرداں ہونے کے باوجود متعدد طرح کے تضادات کا شکار تھا۔مشرق اور مغرب کے درمیان فیصلہ کرنا اُن کے لیے بہت کٹھن تھا کہ وہ کون سا راستہ اختیار کریں۔ اس معاشی بدحالی سے باہر نکالنے کے لیے پریم چند نے ادب کا سہارا لیا۔اس لیے اُن کے ناولوں کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ظلم کرنے والوں کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دیا ،استحصال کرنے والوں کے بجائے استحصال کیے جانے والوں اور حاکم کے بجائے محکوم کے ساتھ اور خاص کر زمیندار اور کسان کی لڑائی میں پریم چند کسانوں کی رہمنا ئی کر تے نظر آتے ہیں جس کا بخوبی اندازہ اُن کے ناولوں سے لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بیوہ عورت ، ناکامیاب شادی ، جہیز کی لعنت اور سماجی تفریق جیسے موضوعات پر افسانے لکھے ۔ اس دور میں ایک مصلح کی حیثیت سے اپنے معاشرے کو احترام ، انسانیت ، مشرقی و مغربی تہذیب کے فرق اور اخلاقی اقدار کی جانب انہوں نے متوجہ کیا۔پروفیسرشکیل الرحمٰن ہندوستانی جمالیات کی تنقید کا اہم نام ہے انھوں نے جمالیاتی تنقیدی کو مد نظر رکھتے ہوئے پریم چندر کی فکشن نگاری کا جائزہ لیا ہے ، اس کتاب کے تحت انھوں نے پریم چند کی ناول نگاری ، ان کے افسانے ، پریم چندر کی تکنیک اور اسلوب کے حوالے سے عالمانہ گفتگو کی ہے ۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free