aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب میں ایسے تخلیق کاروں کے افکار سے بحث کی گئی ہے جن کی تحریریں ناول اور افسانے کے فن کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ کتاب میں بارہ تخلیق کار ناقدین پر تیرہ مضامین شامل ہیں ۔ ان تمام مضامین میں تین باتیں قابل توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان سے اردو کی فکشن تنقید کے ارتقا کی تاریخ مرتب ہوتی ہے، دوسرے ان سے فکشن کے اصول و نظریات اور مباحث کا تعین ہوتا ہے اور تیسرے یہ کہ ان سے تخلیق کاروں کی تنقیدی صلاحیتوں کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ فن کو کیا سمجھتے تھے اور اسے کیسے دیکھ اور برت رہے تھے۔ ان تخلیق کاروں کی تصویریں ٹائیٹل پیج پر دیکھ کر انوکھے پن کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ دس تصویریں ہیں اگر دو اور دستیاب ہوجاتیں تو یہ خانہ بھی مکمل ہو جاتا۔
ابوبکر عباددربھنگہ شہر سے سات کلو میٹر دورمشرق کی جانب ایک چھوٹے سے گاؤں پورہ نوڈیہا میں پندرہ دسمبر 1968ء کو پیدا ہوئے۔ دادا جناب شمس الدین انڈین ریلوے میں لائن انسپکٹر تھے،چچا حضرت مولانا عبد الرحمٰن امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ اور جھار کھنڈ کے پانچویں امیر شریعت اور والدحضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین ایشیا کے معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند میں مفتی اعظم کے عہدے پر فائزتھے۔
ابوبکر عباد کی تعلیم کی بسم اللہ دارالعلوم دیوبند میں ہی قواعد بغدادی سے ہوئی۔دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد عصری علوم کے حصول کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔وہاں سے بی۔اے، ایم۔اے، ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور ڈیڑھ سال تک وہیں شعبۂ اردو میں بحیثیت استاذ درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ 2002میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں تقرر ہو گیا ۔ اب بھی اسی شعبے سے منسلک ہیں۔ ابوبکر عباد کو حضرت مولانا منت اللہ رحمانی، حضرت مولانا محمد ولی رحمانی، مولانا سید ارشد مدنی ،مولانا عبدالخالق مدراسی،پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر ابولکلام قاسمی، پروفیسر شہریار اور پروفیسرنورالحسن نقوی جیسی مذہبی،سیاسی، علمی اور ادبی شخصیات سے شرف تلمذ حاصل ہے ۔
ابوبکر عباد نے لکھنے کی ابتدا مذہبی اور اصلاحی مضامین سے کی تھی ۔ ادب کی دنیا میں افسانہ نگاری کے ساتھ قدم رکھا۔ زمانۂ طالبعلمی میں ’الفاظ‘ علی گڑھ اور ’فلمی ستارے ‘دہلی جیسے رسالے میں شائع ہوتے رہے۔ مشہور پوسٹ ماڈرنسٹ نقاد پروفیسر قاضی افضال حسین کے زیر تربیت تنقید کی طرف راغب ہوئے اور ’شب خون‘، ’آجکل‘،’سب رس‘ ، ’ایوان اردو‘ اور ’کتاب نما‘ جیسے جرائد میں تواتر سے تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں۔ ’’ممتاز شیریں: ناقد ، کہانی کار‘‘،’’ فکشن کی تلاش میں‘‘ ، ’’تقلید سے پرے‘‘ ابوبکر عباد کی فکشن کی تنقید سے متعلق کتابیں ہیں اور ’’تنقید سے پرے ‘‘ ان کی شاعری کی تنقید ہے۔
ابوبکر عباد کی شاعری کی عمر بہت زیادہ نہیں تاہم عمدہ اور اہم نظمیں کہتے ہیں۔ تاریخ ، سیاست، نیچر ، نفسیات اور موجودہ انسانی مسائل ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ خوبصورت تشبیہات و استعارے، تلمیحات ، رواں بیانیہ، نغمگی اور زبان کا حسن ان کی شاعری کے اہم عناصر ہیں ۔ ’سب رس‘ حیدر آباد، صدف‘ پٹنہ،’ کتاب نما‘دہلی، ایوان اردو‘دہلی،’نیاورق‘ ممبئی ،’اردو چینل‘ممبئی، ’زبان و ادب‘ پٹنہ، ’دربھنگہ ٹائمز،‘ دربھنگہ، ’جہان اردو‘دربھنگہ اور ’سبق اردو‘الٰہ آباد میں تسلسل سے ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets