aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غالب سے قبل بہادر شاہ ظفر کی شعری نشستوں میں ذوق کا پرچم لہراتا تھا اور جب غالب نے شعر گوئی کی تو ذوق و غالب کے درمیان چشمک ہو گئی اور دونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فراق میں رہنے لگے مگر ذوق کا تعلق شاہ ظفر سے بہت قدیمی تھا اور وہ استاد کی حیثیت رکھتے تھے اس لئے غالب کی دال نہیں گل رہی تھی مگر غالب بھی کہا پیچھے رہنے والوں میں سے تھے روز نت نیا بکھیڑا کھڑا کر دیتے، کبھی شاعری میں ذوق کو اکساتے تو کبھی اشارہ و کنایہ کر کے ذوق کو پریشان کر دیتے اور ذوق پریشان ہوکر بادشاہ سے شکایت کرتے۔ جب ذوق نے شاہزادے جواں بخت کی شادی کا سہرا کہا تو غالب بھی اپنا سہرا لیکر پہونچ گئے۔ لیکن آہستہ آہستہ غالب نے اپنی جگہ بادشاہ کے دربار میں بنا ہی لی اور بادشاہ کی مجالس کی رونق بڑھانے کی غرض سے شمع محفل ہو گئے کبھی بادشاہ کی شعری اصلاح کرتے تو کبھی قصیدہ کہہ کر بادشاہ کو خوش کرتے تو کبھی آپ کی تعریف کرتے کبھی تیموری خاندان پر کتاب لکھنے کی ٹھان لیتے۔ غالب کا تیموری خاندان سے بہت قدیم تعلق ہے جب ان کے آبا و اجداد ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو اسی خاندان سے وابستہ ہوئے تھے، یہ وابستگی غالب تک قائم رہی۔ اس کتاب میں اسی شاہی تعلق پر بات کی گئی ہے۔ نیز ذوق اور غالب کی چشمک کو تاریخی حوالوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، غالب کا تیموری شہزادوں کے تعلق کو باقاعدہ نام بنام بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح قلعے کی مشاعروں ان کی شرکت، سہرا و قصیدہ وغیرہ پر سیر حاصل بات کی گئی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free