aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
قتیل شفائی کے غزلیہ کلام " گفتگو" پیش نظر ہے۔ جس کے متعلق فیض احمد فیض کی رائے قابل تحریر ہے کہ "ان کا لہجہ ہمیشہ سے مطربانہ ہے اور ان کی فکر ہمیشہ سے درد مندانہ طرب اور درد کے درمیان جو بہت سے مقامات پڑتے ہیں،کوئی رنگین ،کوئی ویران ، کوئی اداس،قتیل صاحب نے مختلف پیرایوں میں ان منظر وں کو لفظوں میں پیش کیا ہے ، اور اس کاوش میں انسان دوستی اور امید فردا کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے نہیں دیا،یہ مجموعہ ان کے اسی منفرد رنگ کی منفرد مثال ہے۔"قتیل شفائی کے غزلوں میں ان کا انفرادی رنگ نمایاں ہے۔ان کا انداز فنی روایا ت کا حامل ہونے کے باوجود ایک خاص منفرد رنگ اور اسلوب رکھتا ہے، جس میں داخلی و خارجی احساسات کی آمیزش کے ساتھ فنی محاسن نمایاں ہیں۔
اورنگ زیب خاں نام اور قتیل تخلص تھا۔۲۴؍دسمبر ۱۹۱۹ء کو ہری پور، ضلع ہزارہ (صوبہ سرحد) میں پیدا ہوئے۔ حکیم یحییٰ خاں شفا کے شاگرد تھے۔اسی مناسبت سے شفائی کہلاتے تھے۔’’ادب لطیف‘‘ اور ’’سنگ میل‘‘ کے مدیر رہے۔ انھوں نے گیت بھی لکھے، نظمیں بھی اور غزلیں بھی۔ ان کی فلمی گیتوں نے برصغیر کے سامعین کو بہت متأثر کیا۔تمغا برائے حسن کارکردگی او رآدم جی ادبی ایوارڈ کے علاوہ کتنے ہی اعزازات حاصل کیے۔ اس کے علاوہ متعدد ایوارڈ بہترین نغمہ نگاری پر ملے جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، نگار ایوارڈ،مصور ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔۱۱؍جولائی ۲۰۰۱ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’ہریالی‘، ’گجر‘، ’جلترنگ‘، ’روزن‘ ، ’جھومر‘، ’مطربہ‘، ’گفتگو‘، ’چھتنار‘، ’آموختہ‘، ’پیراہن‘، ’ابابیل‘، ’برگد‘، ’گھنگرو‘، ’رنگ ،خوش بو، گیت‘(شاہ کار گیت) ، ’مونالیزا‘، ’سمندر میں سیڑھی‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:105
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets