Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : شمیم حنفی

اشاعت : 001

ناشر : اکیڈمی بازیافت، کراچی

سن اشاعت : 2010

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : تنقید

صفحات : 222

معاون : شمیم حنفی

اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

اقبال کے کلام میں تنوع ہوتا ہے جس کی معنویت عصر حاضر میں بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ زیر نظر مجموعہ میں اقبال کے اصناف کلام کو مستقل عنوان قائم کرکے سمجھایا گیا ہے۔ اس میں ان کی شاعری، ، شعری تصورات، ، اقبال اور عصر حاضر ،اقبال اور جدید غزل اور "اقبال کو سمجھنے کے لئے" جیسے موضوعات کو شامل کرکے اقبال فہمی کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔ کتاب کا آخری مضمون " ذوق و شوق" میں تو جیسے اقبال کے اندر کی بات باہر کر دی گئی ہو ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر بڑے شاعر کی طرح ان کا شعور بھی ایک ساتھ دو دنیاوں سے گزر رہا ہوتا ہے ۔ایک دنیا ان کے خارج کی اور دوسری ان کے باطن کی اور یہ دونوں دنیا ان کے تخیل پر سوار رہتی ہے مگر یہ دنیا مغلوب اور دوسری دنیا غالب بن کر رہتی ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

اردو کے بلند پایہ ناقد، دانشور، ادیب اور ڈرامہ نگار پروفیسر شمیم حنفی کی پیدائش ۱۷ مئی 1939 کو سلطان پور کے ایک معزز علمی گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد محمد یٰسین لاء گریجویٹ تھے اور علم و ادب سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم سلطان پور میں حاصل کرنے کے بعد مدھوسودن ودھیالیہ سے انٹر کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے الہ آباد چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے بی اے ، ایم اے اردو اور ایم اے تاریخ کی ڈگریاں حاصل کیں اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے ڈی فل کیا جو پی ایچ ڈی کا ہی دوسرا نام ہے۔ ڈی فل میں ان کے نگراں معروف نقاد پروفیسر احتشام حسین تھے۔ پروفیسر احتشام حسین کی نگرانی میں ہی ان کا تنقیدی شعور پروان چڑھا۔ شمیم حنفی کو فراقؔ، ڈاکٹر اعجاز حسین اور انگریزی ادب کے معروف دانشور پروفیسر ایس سی دیو جیسے اساتذہ کی سرپرستی حاصل رہی جن سے ان کے ذہن رسا کو نہ صرف یہ کہ علم و آگہی کی روشنی ملی بلکہ مستقبل کی راہ متعین کرنے کا حوصلہ بھی ملا۔ الٰہ آباد سے ڈی فل کرنے کے بعد پروفیسر شمیم حنفی ۱۹۶۵ میں اندور یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوگئے اور جلد ہی اردو، فارسی اور عربی کے صدر شعبہ بنا دیے گئے۔ ۱۹۶۹ میں آپ کا تقرر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت لیکچرر ہوگیا۔ علی گڑھ کی علمی و ادبی فضاؤں نے انھیں نئی قوت پرواز عطا کی اور یہیں سے انھوں نے ۱۹۷۶ میں پروفیسر آل احمد سرور کی نگرانی میں دوہرے امتیازات کے ساتھ ڈٰی لٹ کی باوقار سند حاصل کی۔ اسی سال آپ کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بحیثیت لیکچرر ہوگیا۔ اپنی غیر معمولی صلاحیت اور علمی بصیرت کی بنا پر وہ چند ماہ بعد ہی ریڈر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ۱۹۸۴ میں پروفیسر کے منصب پر فائز ہوگئے۔ آپ کئی دفعہ شعبۂ اردو کے صدر رہنے کے علاوہ ڈٰین فیکلٹٰی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز اور اردو کریسپانڈنس کورس کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ ۲۰۰۷ میں جامعہ کی تدریسی ذمہ داریوں سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے مگر ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں سے جامعہ کو محروم نہ ہونے دینے کی غرض سے انھیں پروفیسر ایمرٹس بنا دیا گیا۔ یہ تاحیات اعزازی منصب تھا جس کا مطلب تھا کہ جامعہ کو آپ کی آخری سانس تک آپ کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل رہے گی۔

پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی تعلیمی و تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی بے مثال خدمت کی ہے۔ تحقیق و تنقید کے میدان میں ان کی کتابیں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، غزل کا نیا منظرنامہ ، تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجربہ، اقبال کا حرف تمنا ، فراق دیار شب کا مسافر، غالب کی تخلیقی حسیت، انفرادی شعور اور اجتماعی زندگی اور قاری سے مکالمہ وغیرہ انھیں اپنے عہد کا معتبر ناقد اور مبصر قرار دیتی ہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی تنقید اور تحقیق کے دائروں سے الگ ایک بالیدہ تخلیقی ذہن کے مالک بھی ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے بہترین ڈراموں کا مجموعہ ’مٹی کا بلاوا‘، اور ریڈیو کے لیے لکھے گئے ڈراموں کے مجموعے ’’مجھے گھر یاد آتا ہے‘‘ اور ’’زندگی کی طرف ان کی جولانیٔ طبع اور فنی بصیرت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ’مٹی کا بلاوا‘ کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔ ان کی دوسری کتابیں بھی اردو درسیات کا حصہ ہیں۔ ادبی صحافت کے میدان میں بھی آپ نے اپنی صلاحیتوں سے پوری اردو دنیا کو متاثر کیا ہے۔ آپ کی ادارت میں کئی سالوں تک مسلسل شائع ہونے والے جامعہ ملیہ کے سہ ماہی جریدے ’’جامعہ‘‘ کے شمارے ان کی صحافتی لیاقت کا آئینہ ہیں۔انھوں نے تہذٰیب ، ثقافت، حالات حاضرہ اور مختلف ادبی اور سماجی  موضوعات پر لاتعداد مضامین قلمبند کیے۔ غالب، نہرو اور اندرا گاندھی جیسی شخصیتوں کی سوانح، بچوں کے لیے کہانیاں اور تربیتی کتابیں بھی لکھیں۔ انگریزی، ہندی اور بنگالی کی کئی اہم کتابوں کو اردو کا لباس پہنایا۔ شعرا کے تذکرے اور کلام کے انتخاب مرتب کیے۔ ہم عصر ادیبوں، شاعروں پر مضامین تحریر کیے۔ آپ کو شعر و سخن سے بھی لگاؤ تھا، بہت سی غزلیں اور نظمیں لکھیں۔

ملک کی متعدد درسگاہوں، اکیڈمیوں وغیرہ کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی آپ کے علمی و ادبی خطبات بے حد معروف و مقبول رہے۔ ہائیڈل برگ جرمنی میں منعقد عالمی اقبال سیمینار میں آپ نے اقبالیات پر اپنا گراں قدر مقالہ بھی پیش کیا۔ اس سے قبل علامہ اقبال کے گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی مقالہ پیش کرنے کا موقع آپ ملا۔ جسے علامہ اقبال کی فکری جہات کی تفہیم میں ایک صحت مند اضافہ تسلیم کیا گیا۔ آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی بڑٰے اداروں، تنظیموں اور اکادمیوں نے آپ کو اعزازات سے نوازا جن میں مولانا ابو الکلام آزاد ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکادمی کا پرویز شاہدی ایوارڈ، غالب ایوارڈ دہلی اردو اکادمی ایوارڈ، اترپردیش اردو اکادمی کی طرف سے اعزاز وٖغیرہ شامل ہیں۔ سال ۲۰۲۱ کی شروعات میں مجلس فروغ اردو ادب قطر کی جانب سے آپ کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ ۲۰۲۱ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

تصنیفات و تالیفات 

 ہزار داستان (فراق گورکھپوری کے ایک ہزار اشعار کا انتخاب ٦٥ - ١٩٦٤)، مرزا غالب:سوانح(اردو ہندی ١٩٦٥)، جواہر لال نہرو - سوانح (اردو ہندی ١٩٦٥)،  قومی یکجہتی اور سیکولرازم (ترجمہ ١٩٧٥)، جدیدیت کی فلسفیانہ اساس (تنقیدی مقالہ برائے ڈی لٹ جلد اول، ١٩٧٧)، شعری روایت (تنقیدی مقالہ برائے ڈی لٹ جلد دوم، ١٩٧٨)، مٹی کا بلاوا (ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ، ١٩٨١)، غزل کا نیا منظر نامہ(١٩٨١)، بھوتوں کا جہاز ( بچوں کے لیے پری کتھاؤں کا مجموعہ، ١٩٨٢)، شہر خوں آشام ( پچاس بنگالی شعرا کے کلام کا ترجمہ، ١٩٨٣)، فراق: شاعر اور شخص(ترتیب و انتخاب مضامین، ١٩٨٣)، کہانی کے پانچ رنگ (تنقیدی مضامین، ١٩٨٣) اندرا گاندھی کی کہانی (سوانحی حالات، ١٩٨٤)، مجھے گھر یاد آتا ہے (ریڈیائی ڈرامے، ١٩٨٥)،  کٹا ہوا ہاتھ (١٩٨٦)، ییاتی سیریز : ایک مطالعہ، یادوں کا اجالا: خودنوشت سوانح( ترجمہ ١٩٨٦)، انتخاب فیض ( ترتیب و انتخاب مضامین، ١٩٨٦)، زندگی کی طر (ریڈیائی ڈرامے، ١٩٨٨)، جواہر لال نہرو : جدوجہد کے سال (منتخب تحریریں - انگریزی سے ترجمہ، ١٩٩٠)، آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ (١٩٩١)،  غزل اور غزل گائیکی(١٩٩١)، ہماری آزاری (ترجمہ - مصنف مولانا ابوالکلام آزاد، ١٩٩١)، انتخاب عمیق حنفی (١٩٩٥)، سرسید سے اکبر تک (بہ اشتراک سہیل فاروقی، ١٩٩٥)، سیاہ فام ادب (ترتیب بہ اشتراک سہیل فاروقی، ١٩٩٥)، اقبال کا حرف تمنا (اقبال پر مضامین، ١٩٩٦)، فراق : دیار شب کا مسافر (ترتیب بہ اشتراک سہیل فاروقی)، قاری سے مکالمہ (تنقیدی مضامین، ١٩٩٨)، بازار میں نیند(ریڈیائی ڈرامے، ١٩٩٨)، تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ (٢٠٠٣)، خیال کی مسافت (تنقیدی مضامین، ٢٠٠٣)، نذر انیس (ترتیب رسالہ جامعہ کا خصوصی شمارہ، ٢٠٠٣)، انتخاب رسالہ جامعہ - جلد اول (جامعہ ملیہ اسلامیہ، تحریک، تاریخ، روایت، ٢٠٠٣)، انتخاب رسالہ جامعہ - جلد دوم (اوراق مصور متعلقین و معاصرین، ٢٠٠٤)، انتخاب رسالہ جامعہ - جلد سوم ( ترتیب و انتخاب جامعہ ملیہ اسلامیہ علمی اور تہذیبی وراثت، ٢٠٠٤)، آزادی کے بعد اردو نظم (٢٠٠٥)، ہم سفروں کے درمیان (مضامین، ٢٠٠٥)، پریم چند کے منتخب افسانے (٢٠٠٥)، غالب کی تخلیقی حسیت (تنقیدی مضامین، ٢٠٠٥)، ہم نفسوں کی بزم میں (مضامین، ٢٠٠٦)، انتخاب رسالہ جامعہ - جلد چہارم (٢٠٠٦)، انفرادی شعور اور اجتماعی زندگی (تنقیدی مضامین، ٢٠٠٦)، ایک بونے کا قصہ ( بچوں کے لیے کہانیاں، ٢٠٠٦)،  رات شہر اور زندگی ( مضامین، ٢٠٠٧)، درزی شہزادے کی کہانی (بچوں کے لیےکہانیاں، ٢٠٠٧)، بازار شیشہ گری( مضامین، ٢٠٠٧)، غالب، فیض احمد فیض، اکبر الہ آبادی، اخترالایمان(ہندی زبان میں چار کتابیں)، دوکان شیشہ گراں(٢٠٠٨)، ادب ادیب اور معاشرتی تشدد (٢٠٠٨)، جدیدیت اور نئی شاعری (٢٠٠٨)، اردو کا تہذیبی تناظر اور معاصر تہذیبی صورتحال( ٢٠١٠)، اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ ( ٢٠١٠)، منٹو حقیقت سے افسانے تک (٢٠١٢)، میرا جی اور ان کا نگار خانہ (٢٠١٣)، آپ اپنا تماشائی (٢٠١٤)، یہ کس کا خواب تماشا ہے:کالمز (مرتب خالد جاوید، 2014)، آخری پہر کی دستک ( شاعری، 2015)

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے