aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو شاعری کی مٹھاس کو عوام تک پہنچانے میں شہر یا ر کی خدمت بے مثال ہے ۔ انہوں نے بالی ووڈ فلموں کے ایسے ایسے کامیاب نغمے لکھے جن کاشمار ادب میں بھی ہوتاہے اور عوام میں بھی زبان زد ہے ۔ فلموں سے زیادہ ان کا ادبی دنیا سے گہرا تعلق تھا ، در س و تدریس سے لمبا رشتہ رہا اور علم وادب سے تا عمر شغف رہا ۔ آزادی کے بعد ار دو کی آواز میں جب تبد یلی آئی تو شہر یار کی کھنکتی ہوئی آواز سب سے تیز گونجی اور پینسٹھ کی دہائی میں ان کا یہ شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔ اس میں حقیقت نگاری کا عمدہ ترین معیار پیش کیا گیا ہے ۔ زندگی جن تضادات سے گزررہی تھی ان ہی کو مو ضوع بنا کر فکری آزا دی کے علم کو بلند رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ وہ اپنی شاعری میں افرا د اور معاشر ے دونوں کی خوبیوں اور خامیوں پر بیک وقت نگاہ ڈالتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر غلام شبیررانا ’’ان کی شاعری میں ہر لفظ گنجینہ معانی کا طلسم ہے ۔ ہر لحظہ نیاطور نئی بر ق تجلی کی کیفیت ہے جس کی چکاچوند سے قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے …ان کااسلوب ان کی ذات ہے جو کہ ان کی شاعری میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گرہے ۔ ‘‘ ہندو ستان میں یہ اردو کے چوتھے ادیب ہیں جنہیں ہندوستان کا اعلی ادبی ایوارڈ ’’ گیان پیٹھ ‘‘ ان کے اسی شعری مجموعہ پر پیش کیا گیا ہے۔
کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہر یار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ 16 جون 1936کو آنولہ، ضلع بریلی، اُتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہردوئی میں حاصل کی۔ 1948میں علی گڑھ آئے۔ 1961 میں اردو میں ایم اے کیا۔ 1966میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے۔ 1996میں یہیں سے پروفیسر اور صدر اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ہاکی، بیڈمنٹن اور رمی کھیلنا پسند کرتے تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی سے قربت کے بعد شاعری کا آغاز ہوا۔ کچھ غزلیں کنور محمد اخلاق کے نام سے شائع ہوئیں۔ خلیل الرحمان اعظمی کے مشورے پر اپنا نام شہریار رکھا۔ ان کے والد پولس انسپکٹر تھے۔ انجمن ترقی اردو (ہند )علی گڑھ میں لٹریری اسسٹنٹ بھی رہے اورانجمن کے رسائل اردو ادب اور ہماری زبان کی ادارت بھی کی۔ مغنی تبسم کے ساتھ شعر وحکمت کی ادارت بھی کی۔ ان کی شہرت میں مظفر علی کی گمن اور امراؤ جان جیسی فلموں کا اہم رول ہے۔ فلم انجمن کے گانے بھی انہی کے لکھےہوئے ہیں۔ ساہیتہ اکادمی کے لیے بیدار بخت نے مری این ائر کی مدد سے ان کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایک انگریزی ترجمہ رخشندہ جلیل نے بھی کیا ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز پاکستان سے ان کا کلیات شائع ہوا جس میں ان کے چھے مجموعے شامل ہیں۔ یہی کلیات 'سورج کو نکلتا دیکھوں' کے نام سے ہندوستان سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو میں ہو چکا ہے۔ گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکیڈمی سمیت متعد د اعزازات سے نوازے گئے۔ 13 فرروری2012 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets