Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : جمیلؔ مظہری

ایڈیٹر : ہلال نقوی

سن اشاعت : 1988

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : مرثیہ

صفحات : 253

معاون : مظہر امام

جمیل مظہری کے مرثیے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

جدید مرثیہ نگاری کے عہد میں جمیل مظہری کا نام امتیازی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے عہد طفلی میں ہی شاعری کا آغاز کیا اور اس ماحول میں پرورش پائی جہاں مجالسِ عزا کا اہتمام ہوتا تھا۔ جمیل مظہری نے اپنی کم عمری کے باوجود معرکتہ الآراء مرثیے نظم کرکے اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی۔ انکاپہلا مرثیہ عرفان ِعشق(۱۹۳۰ء )جو فکر ی لحاظ سے انقلاب انگیز ہے۔ اسکے علاوہ پیمانِ وفا (۱۹۳۶) عزم محکم(۱۹۴۲ء )مضراب شہادت(۱۹۵۱ء )افسانہ ہستی(۱۹۵۷)شامِ غریباں (۱۹۶۳ء) جیسے شاہکار مرثیے نظم کرکے اپنے تبحرِ علمی ، وجدانی کیفیات اورتجربے کی ضو میں واقعات ِکربلا کا جائزہ لے کر اسے مذہب اور خالص فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے بلند کیا۔ ان کا دور جوش ملیح آبادی اور نجم آفندی والا ہے ، ان مشہور و معروف مرثیہ نگاروں کی وجہ سے ہی مظہری کو وہ شہرت نہیں مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ مگر معیاری مرثیہ نگاروں میں ان کا نام شامل ہے۔ زیر نظر کتاب میں جمیل مظہری کے دس اقسام کی مراثی کو شامل کیا ہے اور ہر قسم کے ساتھ ایک باب قائم کیا ہے اور اس باب کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ کب اور کس سال میں کہا گیا مرثیہ ہے۔ ہر باب کے شروع ہونے سے پہلے یہ بتا دیا ہے کہ اس عنوان کے تحت کتنے بند ہیں اور کس واقعہ کے غم میں یہ مرثیہ کہا جا رہا ہے ۔ ۱۹۴۱ کی کچھ یادگار تصویریں بھی دی گئی ہیں ۔ٹائیٹل پیج لال رنگوں سے نہایا ہوا ہے جو کہیں نہ کہیں کسی کے ناحق خون کا اشارہ دیتا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

سید کاظم علی نام، جمیل مظہری کے نام سے شہرت پائی۔ 1904 میں پٹنہ میں ولادت ہوئی۔ ان کے ایک بزرگ سید مظہر حسن اچھے شاعر ہوئے ہیں۔ ان سے خاندانی تعلق پر سید کاظم علی کو فخر تھا۔ اس لیے جمیل تخلص اختیار کرنے کے ساتھ ہی اس پر مظہری کا اضافہ کیا۔ ابتدائی تعلیم موتیہاری اور مظفر پور میں حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے کلکتہ چلے گئے۔ کلکتہ میں مولانا ابوالکلام آزاد، آغاز حشر، نصیر حسین خیال اور علامہ رضا علی وحشت جیسی ہستیوں سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔

جمیل مظہری نے 1931 ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ شعر گوئی کا آغاز وہ تعلیم کے دوران ہی کر چکے تھے۔ وحشتؔ سے اصلاح لیتے تھے۔ استاد کو اپنے شاگرد کی صلاحیت کا علم تھا۔ جلد ہی انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ اب اصلاح کی ضرورت نہیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جمیل مظہری نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ یہ سلسلہ تقریباً چھ سال جاری رہا۔ اس دوران انہیں بہت کچھ لکھنے کا موقع ملا اور قلم میں روانی آئی۔ اس طرح نثر نگاری کا شوق ہوا۔ سیاسی مضامین، علمی مقالات، ناول اور افسانہ غرض انہوں نے بہت کچھ لکھا۔ ’’فرض کی قربان گاہ پر‘‘ ایک ناول لکھا جو بہت مقبول ہوا۔

صحافتی زندگی نے عملی سیاست کے لیے میدان ہموار کیا اور 1937 میں بہار کی کانگریسی حکومت میں پبلسٹی آفیسر مقرر ہوگئے۔ 1942 ء کانگریسی حکومت مستعفی ہوگئی تو جمیل مظہری بھی پبلسٹی آفیسر کی ذمہ داری سے کنارہ کش ہوگئے۔ آخرکار انہوں نے عملی سیاست کے خارزار سے کنارہ کر لیا اور پٹنہ یونیورسٹی میں اردو کے استاد کا منصب قبول کر لیا۔ 1964ء میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہو کر اردو شعر و ادب کی خدمت کے لئے یکسو ہوگئے۔ غزلوں کا مجموعہ’’فکر جمیل‘‘ اور نظموں کا مجموعہ ’’نقش جمیل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

علامہ جمیل مظہری نے نثر کی طرف بھی توجہ کی اور بہت کچھ لکھا لیکن کا اصل کارنامہ شاعری ہے۔ اپنے قدیم شعری سرمایے کا انہوں نے بہت توجہ سے مطالعہ کیا ہے اور اپنی کلاسیکی روایات سے متاثر ہیں اس لئے ان کی شاعری موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ ان کے چند شعر یہاں پیش کیے جاتے ہیں؎

لکھے نہ کیوں نقش پائے ہمت قدم قدم پر مرا فسانہ
میں وہ مسافر ہوں جس کے پیچھے ادب سے چلتا رہا زمانہ

یہ تیزگاموں سے کوئی کہہ دے کہ راہ اپنی کریں نہ کھوٹی
سبک روی نے قدم قدم پر بنا دیا ہے اک آستانہ

یہ کیسی محفل ہے جس میں ساقی لہو پیالوں میں بٹ رہا ہے
مجھے بھی تھوڑی سی تشنگی دے کہ توڑ دوں یہ شراب خانہ

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے