aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سید محمد اسماعیل منیر شکوہ آبادی کا دور انیسویں صدی کے اوائل سے اواخر تک کا احاطہ کرتا ہے۔ منیر کا شمار اردو شاعری کے باکمال شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی قوت ایجاد اور اختراعی صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں خاصا طبع زاد مانا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے بھی بعض ایسے گمشدہ پہلووٴں کی جانب اشارہ کرتی ہے جو اب تک عوام کے سامنے نہیں آ سکے تھے، مثلاً اکثر محققین و مورخین نے اب تک ان کے بارے یہی بتایا ہے کہ انہیں انگریزوں نے ایک طوائف نواب جان کے قتل کی پاداش میں کالے پانی کی سزا سنائی تھی جب کہ یہ کتاب اس کو رد کرتی ہے۔ انہیں اردو شاعری میں ایک خاص شعری رخ کی وجہ سے جانا جاتا ہے جسے ’حبسیہ‘ کہا گیا ہے۔
نام محمد احمد توصیف، ڈاکٹر اور تخلص توصیف ہے۔۳؍اگست ۱۹۲۸ء کو بدایوں کے ایک قصبہ سہسوان میں پیدا ہوئے۔تقسیم ہند کے بعد راول پنڈی آگئے۔۱۹۶۲ء میں گورڈن کالج، راول پنڈی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ ’’منیر شکوہ آبادی‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔نظم بھی کہتے ہیں مگر غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ ۱۹۵۲ ء سے باقاعدہ مقتدر ادبی رسائل میں آپ کے کلام چھپ رہا ہے۔ان کی شناخت ایک مبصر کی حیثیت سے بھی ہے۔’’کوئی اور ستارہ‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ چھپ گیا ہے جس پر علامہ اقبال ہجرہ ایوارڈ ملا۔’’مثنویات دہلی کا تہذیبی ومعاشرتی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ چکے ہیں جو اب تک غیر مطبوعہ ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:224
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets