aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"جستجو كیا ہے؟" انتظار حسین كی سوانح حیات ہے۔انتظار حسین اردو كے معروف ناول نگار،افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے۔زیرنظر تصنیف ان كی آب بیتی ہے۔جس كا اسلوب رواں اور دلچسپ ہے۔مصنف نے اپنی ماضی كے بھولی بسری یادوں كو صفحہ قرطاس پر یوں بكھیر دیا ہے كہ قاری ان كا ہمنوا بنا كبھی ان كے شہرتو كبھی گلی كوچوں توكبھی مكان تو كبھی ٹرین كا سفركرتانظر آتا ہے۔یہ خودنوشت دراصل انتظار حسین كی ان یادوں پر مشتمل ہے، جسے انھوں نے كسی بھی صنف كے تعین كے بغیر تحریر كیا ہے ۔اسی لیے اس آب بیتی پر كبھی خود نوشت سوانح تو كبھی سفر نامہ اور كبھی داستاں كا گمان ہوتا ہے۔جب ایك عرصہ بعدانتظار حسین كو اپنی گلی كوچوں میں جانے كا اتفاق ہوا ،وہ گلیاں جس كی انھوں نے خاك چھانی تھی،جہاں وہ پلے بڑھے تھے ۔ایك بار پھر وہیں آكرچھوٹے بچے كی طرح حیران ،پریشاں تو كبھی شادماں نظر آتے ہیں۔اپنے گزرے اچھے برے وقت كو انھوں نے ہوبہ ہو قلمبندكردیا،اس طرح یہ كتاب مصنف كے ماضی كی تلخ و خوشگوار یادوں پر مشتمل ہے۔اس كی زبان سادہ سلیس اور اسلوب میں ایسی روانی ہے كہ قاری خود بھی اس روانی میں بہہ كر كبھی لطف اندوزتو كبھی اداس ہوجاتا ہے۔ اس سوانح میں مصنف كی ماضی پرستی ،ماضی پر نوحہ خوانی،پرانی تہذیب و اقدار كے بكھرنے كاغم،اپنے وطن اپنی مٹی سے بچھڑنے كا دكھ اور ہجرت كادردعیاں ہے۔اس كے علاوہ، نئی اقدار،نئے ملك نئی سرزمین پر زندگی كے نئے سفر كےآغاز میں درپیش مسائل كاحقیقی بیان بھی اس كتاب كی اہم خاصیت ہے۔یہ مصنف كی مكمل خودنوشت تونہیں ہے لیكن ان كی زندگی كے اہم گوشوں كو منور كرتی ملك كے سیاسی ،سماجی ،معاشی ،تہذیبی اور مذہبی حالات كی عكاس ہے۔
انتظار حسین 21 دسمبر 1925ءکو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے اور ایم اے اردو کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے، جہاں وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے“ 1952ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب، بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔ ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدارکے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار، انداز اور لہجہ بہت شدید ہوجاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرپرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔
انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں۔
انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
یہ تحریر عقیل عباس جعفری کی ہے جو ایک معروف ادیب ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets