aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے یہ کتاب شمس الرحمن فاروقی کی تصنیف "کئ چاند تھے سرِ آسماں" کے ایک تجزیاتی مطالعے پر مبنی ہے۔ زیرِ نظر کتاب اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتی ہے کہ ڈاکٹر رشید اشرف خاں نے ایک مشکل کام کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ انجام دیا ہے ،فاروقی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دو تین صدیوں پر پھیلے ہوئے ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے شکستہ آئینوں کی کرچیوں کو اپنی فنی صلاحیتوں سے اس طرح جوڑنے کی کوشش کی ہے جس کے باعث یہ کارنامہ فکشن ہو کر بھی تاریخی بن گیا ہے۔ اتنے بڑے تاریخی اور تہذیبی کینوس پر لکھے گئے عہد ساز فنی کارناموں کو ڈاکٹر رشید صاحب نے توجہ سے پڑھ کر اس کے مختصر عناصر کی شناخت و ربط و تعلق کی فنی و لسانی توجیہ پیش کی جو یقیناً قابلِ ستائش ہے۔
اردو ادب کے جواں سال محقق، نثر نگار، شاعر، اور شعبہ اردو (ممبئی یونیورسٹی) کے استاد ہیں، جنھوں نے جدید اردو شاعری کی جمالیات، ادبی تجزیہ، اور کلاسیکی و معاصر ادب پر اہم تحقیقی کام کیے ہیں ۔
اردو شعبے (ممبئی یونیورسٹی) میں استاد ہونے کے ناطے، انہوں نے نہ صرف ادبی سروے اور تجزیہ کیا بلکہ کئی مقالے شائع کیے، جیسے:کئی چاند تھے سر آسماں: ایک تجزیاتی مطالعہ۔ان کے ادبی مباحث نے کلاسیکی شاعری و نثر کے نئے زاویوں پیش کیے، جنہیں اہلِ علم نے بے حد سراہا۔