aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ڈرامہ نگار، صحافی اور شاعر حکم احمد شجاع (1969-1893) نے اپنی اس خود نوشت سوانح عمری میں اپنے کچھ دوستوں، رشتہ داروں اور عزیزوں کی موت کا ماتم کیا ہے۔ ان کا یہ افسوس پوری کتاب میں جا بجا نمایاں ہے لیکن اس میں احمد شجاع کے دورِ زندگی میں پیش آنے والے دوسرے دلچسپ واقعات بھی ہیں۔ انیس سو باسٹھ میں شائع ہونے والی کتاب میں ادبی اور فلسفیانہ آمیزش بھی نظر آتی ہے۔
حکیم احمد شجاع ٭ اردو کے مشہور انشا پرداز‘ ڈرامہ نگار‘ افسانہ نگار اور شاعر حکیم احمد شجاع کی تاریخ پیدائش 4 نومبر1896 ء ہے۔ حکیم احمد شجاع نے لاہور سے میٹرک کرنے کے بعد ایم اے اور کالج علی گڑھ سے ایف اے اور پھر میرٹھ کالج سے بی اے کیا اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہوئے اور پھر اس اسمبلی کے سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی وہ 1948ء سے 1969ء تک مجلس زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے اور ان کی رہنمائی میں ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ حکیم احمد شجاع اردو کے صف اول کے ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے بہت سے افسانے بھی لکھے‘ ناول بھی تحریر کیا اور کئی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ انہوں نے ایک ادبی رسالہ ہزار داستان اور بچوں کا رسالہ نونہال بھی نکالا۔ اپنی خود نوشت خوں بہا کے نام سے تحریر کی اور لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ لاہور کا چیلسی کے نام سے رقم کی۔ وہ قرآن پاک کی تفسیر بھی تحریر کررہے تھی جس کا نام افصح البیان رکھا گیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا اور صرف پانچ پاروں ہی کی تفسیر لکھی جاسکی۔ حکیم احمد شجاع نے 4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پائی اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets