aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ کتاب احمد مشتاق کے چار مجموعے کلام "مجموعہ،گرد مہتاب،کلیات ،اور نیا کلام "پر مشتمل ہے۔مشتاق کے کلام میں نئی لفظیات ،نئے معنی اور نئے موضوعات ملتے ہیں۔ان کے ہاں خوابوں کی ایک دنیا آراستہ ہے ۔ماضی کی خوشگوار اور تلخ یادیں ان کا سرمایہ ہیں۔ان کا تخیل مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ان کے کلام میں معاملات محبت بڑے دلچسپ اور خوبصورت انداز میں سامنے آئے ہیں۔ ان کے یہاں عاشق اتنا ہی مہذب نظر آتا ہے جتنا میر کے یہاں ہے۔یہ عاشق اپنی تمنا میں مگن نظرآتا ہے۔جذباتیت کے اس دور میں مشتاق کی غزل جذبے کی شاعری کی مثال پیش کرتی ہے۔ان کا محبوب تو جدید عہد کا محبوب ہے ۔اور احمد مشتاق نے جو ہوا ،جیسے ہوا ،اپنے وجدان کا حصہ بنا کر بیان کر دیا ہے۔ان کے یہاں تجربے کی نوعیت سراسر ذاتی ہے۔شاعر ذاتی احتساب کے مرحلوں سے گذرتا ہے ،کائنات ،معاشرہ ،عشق کوئی بھی اس کے عمل سے بچ نہیں پاتا۔بہرحال ان کا کلام ان کی متنوع تخلیقی صفات سے معمور انفرادیت کا حامل ہے۔
نام احمد مشتاق اور تخلص مشتاق ہے۔ ۱۹۳۳ء میں پیدا ہوئے۔ عمر کا زیادہ حصہ لاہور میں گزرا۔آپ بینکنگ کے پیشے سے وابستہ رہے۔ لاہور میں چارٹرڈ بینک میں ملازم رہے۔ مستقل طور پر امریکا چلے گئے ہیں۔ ’’کلیات احمد مشتاق‘‘ چھپ گئی ہے۔ ناصرکاظمی کے بارے میں ایک کتاب ’’ہجر کی رات کا ستارہ‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:277
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets