aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جمال احسانی اسی (80)کی دہائی کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے تجربات کو اپنی شاعری کا جامہ پہنایا ۔ ان کی زندگی میں جو پریشانیاں لاحق ہوئیں وہ مصرعوں کے شکل میں رقم ہوئیں ۔انہوں نے اپنے شعری سفر کا آغاز ’’ ستارہ سفر ‘‘ سے کیا تھا اور پہلے ہی مجموعے سے قارئین کو متوجہ کر لیا تھا۔ مجموعہ ’’رات کے جاگے ہوئے‘‘ ان کی اگلی منزل تھی جہاں سے شاعرو ادیب نے انہیں خوش آمدید کہا اور شاعری میں ایک نئی آواز کی نوید سنائی۔ اس مجموعے سے ان کے توقعات پر اتر نے کے لیے’’ تارے کو مہتاب جیسا ‘‘ مجموعہ منظر عام پر لائے اور ان کی نئی آواز کراچی و اطراف میں سنائی دینے لگی ۔ جیسا کہ ان کی زندگی تنگدستی میں گزری ہے تو انہوں نے اپنی شاعری میں اسکو اس طرح بیان کیاہے کہ ان کی زندگی کی کہانی اس میں ضم ہوکر رہ گئی ۔تاہم اپنی شاعری سے جو دھنک رنگ بکھیر ی اس کی پہلی کرن ہی ان کے شعری سفر کی پہچان بن گئی ۔ یہ ان کے تمام شعری مجموعوں کی کلیات ہے جس کے مطالعہ میں ایک الگ دنیانظرآتی ہے ۔
نام محمد جمال عثمانی اور تخلص جمال تھا۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۵۱ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن پانی پت ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے بعد ذریعہ معاش کی تلاش میں کراچی چلے آئے اور محکمۂ اطلاعات ونشریات ،سندھ سے منسلک ہوگئے۔اس کے علاوہ جمال احسانی روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا پرچہ’’رازدار‘‘ بھی نکالتے رہے۔وہ معاشی طور پر بہت پریشاں رہے۔ ۱۰؍فروری۱۹۹۸ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ستارۂ سفر‘‘، ’’رات کے جاگے ہوئے‘‘۔ تیسرا مجموعہ ’’تارے کو مہتاب کیا‘‘، زیر ترتیب تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔۱۹۸۱ء میں سوہنی دھرتی رائٹرزگلڈ ایوارڈ ملا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:407
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets