aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیرمطالعہ مظفر وارثی کا شعری مجموعہ "لہجہ" ہے۔ جس میں ان کی غزلیں شامل ہیں۔ مظفر وارثی موجودہ صدی کی چند گنی چنی آوازوں میں ایک نمایاں ترین شاعر ہیں۔ان کا اپنا ایک منفرد شعری نظام ہے۔علم وسخن اپنی ہر شکل،ہر صنف میں، بہر صورت ان کا اوڑھنا بچھونا بلکہ ان کے وجود کا حصہ ہے۔ شاعری میں آپ بحیثیت نعت گو شاعر معروف ہیں۔لیکن غزل میں بھی ان کی اپنی منفرد پہچان ہے۔ان کی غزلوں میں کرب ،انا،سچائی ،دھوپ چھاؤں،روپ رنگ ،لمحوں کا رنگ ،یہ سب کیفیات موجود ہیں یعنی واردات قلبی کے ساتھ زمانے کے حالات اور مسائل کا بیان بھی ملتا ہے۔
نام محمد مظفر الدین احمد صدیقی اور تخلص مظفر ہے۔۲۳؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور میں بودوباش اختیار کی۔بہترین نعت گو کا ایوارڈ پاکستان ٹیلی وژن سے ۱۹۸۰ء میں حاصل کیا۔ غالب اکیڈمی دہلی کی جانب سے بہترین شاعر کا ’’افتخار غالب‘‘ ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔متعدد فلموں کے گانے بھی لکھ چکے ہیں، مگر جب سے نعت کہنا شروع کی، فلمی گانوں کو خیر آباد کہہ دیا۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’برف کی ناؤ‘(مجموعۂ غزل)، ’باب حرم‘(نعت)، ’لہجہ‘(غزل)، ’نورازل‘(نعت) ، ’الحمد‘(حمدوثنا)، ’حصار‘(نظم)، ’لہوکی ہریالی‘(گیت)، ’ستاروں کی آبجو‘(قطعات)، ’کھلے دریچے‘، ’بند ہوا‘(غزل)،’کعبۂ عشق‘(نعت)، ’لاشریک‘، ’صاحب التاج‘، ’گئے دنوں کا سراغ‘، ’گہرے پانی‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:282
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets