aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب "لیپروسی کیمپ" ایک طویل نثری نظم ہے جسے مشہو و معروف اور مستند فکشن نگار جناب مشرف عالم ذوقی صاحب نے تحریر کیا ہے۔ اس تصنیف کے ذریعے مصنف نے اردو اور ہندی لہجے کے امتزاج سے ایک نئی بوطیقا ترتیب دینے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ مصنف نے نظم کے خارجی محرکات کا ذکر اپنے پیش لفظ میں کیا ہے۔ ابتدا میں جناب نعمان شوقی صاحب کا ایک دیباچہ ہے۔ مجموعی طور پر نثری نظم کے حوالے سے عمدہ تخلیق ہے۔
حالانکہ جدیدیت کی شروعات 1960یا اس سے قبل ہی ہوگئی تھی اور تقریباً یہی وہ زمانہ تھا جب مشرف عالم ذوقی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ 80 کی دہائی تک ترقی پسندی کی جگہ جدیدیت کی جلوہ آفرینی صاف نظر آنے لگی اور تب تک ذوقی کا ذوق پروان چڑھ چکا تھا۔ ذوقی ملک میں سماجی، سیاسی اور اخلاقی انحطاط پذیری سے ہراساں و پریشاں رہنے والے فنکار کی حیثیت سے جانے گئے۔ قومی اور بین الاقوامی تبدیلیوں پر ہر آن تذذب و تردد میں مبتلا رہنے والے ذوقی تحریری اور زبانی طور بھی پر انسان کو انسان بنے رہنے کے داعی رہے۔ ایک دوسرا مسئلہ بھی جو ان کو درپیش تھا، وہ تھا ہندوستان میں اردو کی سمٹتی بساط، آزادی کے بعد اردو زبان کو مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا اور اس طرح دونوں کی صورت ایک جیسی ہوگئی۔ اس کے لئے ان کے پاس ایک ہی آلہ کار تھا ’محبت‘۔ محبت انسان سے، محبت ملک سے اور محبت زبان سے۔ ’پروفیسر ایس کی عجب داستان وایا سنامی‘ سے لے کر ’مسلمان‘ تک انہوں نے جتنے بھی ناول لکھے سب میں محبت کے پیغام کو ایک بڑے وژن کے ساتھ عام کیا اور اس کے لئے انہوں نے کسی سرحد کی پابندی کو لازم سمجھا نہ سیاست ہی کو راہ کی رکاوٹ مانا۔ ناول کے ساتھ ساتھ ان کے افسانے بھی اردو دوستوں میں خوب پسند کیے گئے۔ ا ن کے افسانوی مجموعے ’نفرت کے دنوں میں‘ میں موجود زیادہ تر کہانیوں سے موجودہ سیاست کی کارستانی اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی قدروں کی پامالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کہا جاتاہے 60کی دہائی تک یا اس کے بعد افسانوی صنف میں تجریدی تجربے کے نام پر ابہام در آیا، جو قاری کو واقعی تھکا دینے والا تھا۔ ناولوں اور افسانوں سے بیانیہ عنقا ہونے لگا تھا، بلکہ قابل قدر ناول تو اردو میں لکھا جانا گویا تصور محال تھا جس کی وجہ سے تقریباً دو دہائی قبل ماہنامہ آجکل کے اداریے پر ایک بحث چھڑ ی تھی کہ موجودہ اردو ادب حقیقتاً ادب ہے یا انبار۔ انہوں نے جب لکھنا شروع کیا، غالباً سترہ سال کی عمر میں پہلا ناول ’عقاب کی آنکھیں‘ اور بیس سال کی عمر تک چار ناول ’نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح‘ لکھ چکے تھے، غالباً اسی زمانے انہیں احساس ہوگیا تھا کہ ادب جس سے تہذیب وابستہ ہے اگر کمزور ہوا تو تہذیب ہی نہ رہے گی۔ لہٰذا ادب جینے کو انہوں نے زندگی کا شعار بنا لیا۔ ’بیسویں صدی‘ سے لے کر ’شب خون‘ تک اور پاکستان کے متعدد نامور ماہناموں میں ذوقی تواتر کے ساتھ چھپتے رہے۔ بعد کے ناولوں میں ’لے سانس بھی آہستہ‘ اور ’آتش رفتہ کا سراغ‘ کے علاوہ 2020 میں ان کا ایک اور ناول ’مرگ انبوہ‘ شائع ہوا۔ ان سبھی ناولوں میں حال کے کہرامی تناظر میں مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندی ساہتیہ میں بھی ان کا بڑا شہرہ رہا اور ’ہنس،سریتا، کادمبنی‘ جیسے متعدد پتریکائوں کے ذریعے انہوں نے ساہتیہ پریمیوں میں اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔
ذوقی کی کہانی یا ان کے ناول کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی صنفوں میں وہ جزئیات نگاری پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہوئے سنے گئے کہ جزئیات نگاری ناول یا افسانے کی وہ تکنیک ہے جس کی وجہ سے فکر ایک پھیلے ہوئے جہان کی سیر کرتا ہے اور ہمارے نئے لکھنے والوں کو اس تکنیک سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔ مشرف عالم ذوقی 24 مارچ 1962میں بہار کے آرہ میں پیدا ہوئے اور یکم اپریل 2021 کو زندگی کے تقریباً نصف النہار پر ایک وبائی مرض میں مبتلا ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 1997 سے 2006 کے درمیان کرشن چندر ایوارڈ، سرسید نیشنل ایوارڈ، اردو اکادمی دہلی ایوارڈ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ کے علاوہ کئی دیگر اعزازات انہیں سے نوازا گیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets