aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نسیم امروہوی کی اصل شناخت مرثیہ نگاری ہے۔انہوں نے اپنا پہلا مرثیہ 1923ء میں کہا تھا۔ ان کے کہے ہوئے مراثی کی تعداد 200 سے زائد ہے، زیر نظر کتاب میں نسیم امروہوی کے 27 مرثیوں کو جگہ دی گئی ہے، ہر مرثیہ پر سن تصنیف درج کیا گیاہے ۔جس سے نسیم امروہوی کی مرثیہ نگاری کے ارتقائی عہد کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس وقت کون سا مرثیہ لکھا ۔کتاب کے شروع میں اس کتاب کے مرتب رئیس امروہوی نے نسیم امروہوی، شخص اور شاعر کے عنوان سے ایک طویل مضمون بھی شائع کیا ہے ، جس سے نسیم امروہوی کے فن اور شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
نسیم امروہوی
نام سید قائم رضا، تخلص نسیم۔۲۴؍اگست ۱۹۰۸ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ الہ آباد بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی ، کامل ، مولوی، عالم، فاضل ادب (مع انگریزی) فاضل فقہ اور نوراللہ فاضل کی اسناد حاصل کیں۔ شروع میں انھوں نے قائم تخلص رکھا۔ ۱۹۲۳ء میں نسیم تخلص اختیار کیا۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے ۱۵؍مئی ۱۹۵۰ء کو لاہور آگئے۔ اردو کی سب سے بڑی لغت کی تعمیر وتشکیل کے سلسلے میں اپریل ۱۹۶۱ء سے ترقی اردو بورڈ کراچی سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ یہاں انھوں نے ۱۸برس تک اردو لغت کی تحقیق وتدوین میں کام کیا۔ یکم ستمبر۱۹۷۹ء کو اس ادارے سے ریٹائر ہوگئے ۔ اس کے بعدانھوں نے کراچی کی سکونت ترک کرکے کوٹ ڈیجی(سندھ) کا رخ کیا۔ انھوں نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ، لیکن ان کا اصل میدان مرثیہ ہے ۔ وہ سو سے زیادہ مرثیے کہہ چکے ہیں۔ انھوں نے متعدد علمی وادبی کتابیں تصنیف کیں۔ ۲۸؍فروری ۱۹۸۷ء کو کراچی میں انتقال کرگئے ۔ آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’روح انقلاب‘، ’ساز حریت‘، ’برق وباراں‘(طویل مسدس)، ’نسیم اردو‘، ’نسیم اللغات‘، ’رئیس اللغات‘، ’مراثی نسیم‘(حصہ اول ،دوم، سوم) ، ’تاریخ خیر پور‘، ’فرہنگ اقبال‘(اردو)، ’فرہنگ اقبال‘(فارسی)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:410
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets