by Meer Hasan
masnawiyat-e-meer hasan
Sahr-ul-Bayan, Gulzar-e-Iram, Rumooz-ul-Aarifeen
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
Sahr-ul-Bayan, Gulzar-e-Iram, Rumooz-ul-Aarifeen
زیر نظر کتاب "مثنویات میر حسن" میر حسن کی تین مثنویوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں سحر البیان، گلزار ارم اور رموز العارفین شامل ہیں۔ مجموعہ کے شروع میں عبدالباری آسی کا تفصیلی مقدمہ شامل ہے، جس میں کچھ اہم نکات پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد کتاب میں مثنوی سحرالبیان کا دیباچہ شامل ہے، جس کو میر شیر علی افسوس نے تحریر کیا ہے، دیباچہ اہم معلومات کو پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد مثنوی سحرالبیان کا متن ہے، جو میر حسن ہی نہیں اردو کی اہم ترین مثنویوں میں سے ایک ہے، میر حسن کی تمام مثنویوں میں قبول عام اور شہرت دوام اسی کو ملی۔ اسی لیے اس کی طرف توجہ بھی سب سے زیادہ کی گئی۔ اس مثنوی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اس نسخہ میں مشکل الفاظ کے معانی حاشیہ میں رقم کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد مثنوی گلزار ارم کو شامل کیا گیا ہے، اس مثنوی میں میر حسن نے اپنے عشقیہ رنگ کو بھی پیش کیا ہے اور اپنے عہد کے فیض آباد اور لکھنو کے نقوش بھی بیان کیے ہیں۔ دہلی سے لکھنو آتے ہوئے فیض آباد میں قیام، لیکن اس سے پہلے میوات میں شاہ مدار کے مزار کا ذکر، چھڑیوں کا بیان، پھر میوات کی حسیناوں کی آرائش و زیبائش کا بیان کیا ہے۔ میر حسن لکھنو کی بے رونقی دیکھ کر بہت دل برداشتہ ہوئے۔ فیض آباد کی رونق لکھنو پر فائق تھی، اس لئے اس مثنوی میں لکھنو کی ہجو اور فیض آباد کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ آخر میں مثنوی رموز العارفین ہے، جس میں میر حسن نے بادشاہ ابراہیم ادھم نے بلخ کے سلطنت چھوڑ کر درویش اور فقیری اختیار کرنے کی داستان منظوم کی ہے۔ اس میں میر حسن نے جا بہ جا مولانا روم کی مثنوی کے حصے شامل کئے ہیں اور خود بھی بہت سے اشعار فارسی میں کہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کہانی پیش کرکے معارف حق اور راہ سلوک کا درس دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
Meer Hasan Dehlavi is considered to be the foremost poet of mathnawi. He also practised other poetical forms but his fame rests primarily on his mathnawi entitled Sehr-ul-Bayan.
In his Tazkira-i-Shuara-i-Urdu, Meer Hasan has recorded his nam,e as Meer Ghulam Hasan. He used Hasan as his nom de plume. There is a difference of opinion about his date of birth. According to Qazi Abdul Wadood, he was born in 1717 but Malik Ram in his Tazkira-i-Maah-o-Saal has recorded 1740-41 as the year of his birth. Meer Hasan was born in the locality of Syed Wada in the walled city of Delhi. Because of the deteriorating condition of Delhi, he migrated to Awadh with his father, Meer Ghulam Hussain Zahik. Mus’hafi has related that Meer Hasan was only twelve years old at the time of his migration. After migration, he stayed in Faizabad where he got associated with the estate of Nawab Sarfaraz Jung, son of Nawab Nawab Salar Jung. When the capital shifted from Faizabad to Lucknow in 1775, he also shifted to Lucknow where he ultimately died.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free