aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دیویندر ستیارتھی 28 مئی 1908 کو بھدوڑ، ضلع سنگرور، پنجاب میں پیدا ہوئے اور 95 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ لوک گیتوں کو جمع کرنے کی خدمت جیسی انہوں نے انجام دی ، بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کی ادبی اور تہذیبی ورثے میں اس خدمت میں کوئی اور ان کا ثانی نہیں۔ انہوں نے سنیاسی کا روپ دھار کر پاکستان ، ہندوستان ، نیپال ، سری لنکا ، برما ، بنگلہ دیش کا سفر کیا ، دس سال کے اس سفر میں وہ لاہور بھی کچھ عرصہ ٹھہرے رہے۔ لوک گیتوں پر ان کے مضامین مشہور رسالوں میں چھپتے رہے جن میں "ماڈرن ریویو" اور "ایشیا" بھی شامل ہیں۔ دیوندر ستیارتھی نے اردو میں 106 کے قریب افسانے لکھے جسے ناقدین نے پسندیدگی کا درجہ بخشا۔ تخلیقی سطح پر دیوندر ستیارتھی نے اپنے افسانوں میں افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کی مختلف خوبیوں کو یکجا کرکے افسانوں کو ایک نئی جہت مہیا کی جس پر ان کی گرفت بھی ہوئی مگر تنقید کے باوجود وہ اپنے نئے موقف پر قائم رہے۔زیر نظر کتا ب دیوندر ستیارتھی کی سوانح حیات ہے۔ جس میں ان کی زندگی کے احوال اور ان کے فن کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ ستیارتھی کی پانچ کہانیوں کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا نام "نگری نگری پھرا مسافر"ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب نے تجویز کیا تھا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free