aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"نقد و نظر" ایک تنقیدی، ششماہی رسالہ تھا۔ جس کے بانی و مدیر پروفیسر اسلوب احمد انصاری تھے۔ اس رسالے کا اجراء ۱۹۷۹ میں ہوا۔ یہ ایک ششماہی رسالہ تھا، جو اپریل اور اکتوبر، سال میں دو بار چھپتا تھا۔ رسالہ "نقد و نظر" کی مجلسِ ادارت میں، شمیم حنفی، زیڈ اے عثمانی، سید وقار حسین، سید امین اشرف، مقبول حسن خاں، انور صدیقی اور شافع قدوائی شامل تھے۔ یہ رسالہ بزمِ اقبال، گلفشاں، سول لائنز، دودھ پور، علی گڑھ ۲۰۲۰۰۱ سے شائع ہوتا تھا۔ ابتداء میں رسالہ "نقد و نظر" کا فی شمارہ ۱۰ روپے اور سالانہ ۱۵ روپے تھا، جو ۱۹۹۶ میں علی الترتیب ۳۰ اور ۵۰ روپیہ ہوگیا۔ تقریباً ۱۵۰ صفحات پر مشتمل یہ شمارہ مختلف النوع تنقیدی مضامین اور کتب و رسائل پر تبصروں کے لیے مخصوص تھا۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری، ۱۹۲۵ کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ آگے چل کر آکسفورڈ یونیورسٹی کے آنر اسکول آف انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انگریزی معلم کے طور پر مقرر ہوئے اور ۱۹۸۵ میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ آپ ایک مشہور انگریزی کے پروفیسر، نقاد، ماہرتعلیم، ماہر غالبیات و اقبالیات اور شیکسپئری مطالعات میں با وثوق شخصیت تھے۔ اسلوب انصاری کی پہلی کتاب "ایرو آف انٹلیکٹ" ۱۹۶۵ میں چھپی تھی۔ اسی کتاب کی ریاستہائے متحدہ امریکا میں ۱۹۷۰ میں اشاعت ہوئی تھی۔ ان کی دوسری کتاب "ولیم بلیکز مائنر پروفیسیز" ویلز، برطانیہ کی ایڈوین میلین پریس کی جانب سے ۲۰۰۱ میں چھپی۔ اپنے انتقال سے کچھ وقت پہلے اسی اشاعتی ادارے کی جانب سے ان کی کتاب "دی ایگزسٹینشیل ڈریمٹرگی آف ولیم شیکشپئر" شائع ہوئی تھی۔ وہ ۳۴ کتابوں کے مصنف تھے۔ اس درجہ تفصیلی تعارف سے یہی بتانا مقصود ہے کہ اسلوب انصاری کی علمی شخصیت نے رسالہ "نقد و نظر" پر کیسے اثرات مرتب کیے۔ رسالہ "نقد و نظر" کی عمومی ترتیب یوں تھی، حرفے چند، تنقیدی تجزیے اور پھر کتابوں، رسائل اور دیگر ادبی نگارشات پر تبصرے۔ اسلوب احمد انصاری تو خیر منجھے ہوئے تنقید نگار تھے ہی، ان کی مجلسِ ادارت میں بھی سبھی افراد سکہ بند اور بلند پائے کے تنقید نگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رسالہ "نقد و نظر" کے تحت جو تجزیے اور تنقیدی مضامین شائع ہوئے، انھوں نے اس زمانے کی ادبی دنیا میں ہیجان برپا کردیا۔ اور اردو دنیا کو عملی اور متنی تنقید سے متعارف کروایا۔ "گوشۂ حرفے چند" میں اداریہ اور تین چار منتخب تنقیدی مضامین ہوتے تھے، جیسے رشید احمد صدیقی کی تخلیقی نثر، پریم چند بحیثیت افسانہ نگار، ایوانِ غزل ایک مطالعہ۔ ان مضامین میں زیادہ تر اسلوب احمد انصاری کے ہی رشحاتِ قلم ہوتے۔ اس کے بعد تنقیدی تجزیہ ہوتا جس میں کسی نام ور قلم کار کی ادبی تخلیقات کا محاسبہ کیا جاتا۔ اس سلسلے میں ایک یا دو مضامین ہی ہوتے جیسے غزل: الطاف حسین حالی، اس کے بعد تبصرہ خانہ ہوتا جس میں مختلف معاصر ادبی نوعیت کی کتابوں پر تبصرے ہوتے تھے۔ جیسے رشید احمد صدیقی کے خطوط، ادبی اصطلاحات ایک وضاحتی فرہنگ، دلی اور طبِ یونانی، لوحِ ایام وغیرہ۔ "نقد و نظر" کے تحت کچھ خاص نمبر بھی شائع ہوئے جیسے "اقبال نمبر" اور "فانی نمبر" جن میں ان کے فن و شخصیت پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ "نقد و نظر" میں شائع ہونے والے اہم نام کچھ یوں ہیں، اسلوب احمد انصاری، زیڈ اے عثمانی، سید امین اشرف، سید وقار حسین، سید مقبول حسن خاں، قاضی چھتاری، قاضی جمال حسین، شافع قدوائی، شمیم حنفی، وارث کرمانی، سید نعیم الدین، مسعود حسین خاں وغیرہ۔
Asloob Ahmad Ansari was born in 1925 in Delhi. He did his MA in English from Aligarh Muslim University in 1946, topping the class. In 1947, he became an English lecturer at the same university. Owning to his constant quest for knowledge, he went to London and graduated from Oxford University. In 1959 he became a reader of the English department and in 1967 he became a professor. From 1965 to 1984, he was the head of the department.
His Urdu works include, ‘adab aur tanqeed',' naqsh-e-ghalib','Iqbal ki terah nazmein',' naqsh-e-Iqbal',' Iqbal ki muntakhib nazmein aur ghazlen', 'Iqbal: harf o momin', 'naqsh haa-e-rang rang (Ghalib)', 'Atraaf-e-Rasheed Ahmed Siddiqui',' 'Urdu ke pandrah novel',' Aaina khane Mein', 'Nazar-e-Manzoor (tarteeb)' ' ghazal tanqeed' (In 2 volumes), 'Ghalib: jadeed tanqeedi Tanazuraat’, ‘Iqbal: jadeed tanqeedi Tanazurat’, ‘Tanqeedi tabsarah', 'Harf-e-chand'.
Based on these books, it is clear that Asloob Ahmad Ansari has been inclined towards the analysis of different genres. On the one hand, he took a keen interest in the studies of Ghalib and Iqbal, and on the other hand, he discussed the quality of selected novels and Minhaj. He is especially interested in Iqbal and tries to unravel aspects of his poetry. The reason his writings are particularly insightful is that there is no innate bias towards Islam in his critique. As a result, his literary analysis is free of any premonition. He is also not bent towards any school of thought, sometimes there are glimpses of neo-liberalism, sometimes there are contradictory methods. In a way, his criticism reveals the autonomy of his mind. At most, it can be said that he wants to open the door of understanding for anyone who reads poetry.
Clarity and simple language are the key attributes of Asloob Ahmad Ansari’s writings. He has also written a lot in English. At least eight of his ten books have been published in English, with two editions and six compilations. An original work of his is centered upon William Blake. Milton, John Dunn, Cervalt Riley and Iqbal and Sir Syed are in the spotlight. He has also written a number of articles in various English journals. The articles he has written about Shakespeare have reportedly been liked in the West, and are frequently referred further.
Asloob Ahmed Ansari has also been interested in journalism. From 1979 to 2001, he published important journals in Urdu such as Naqd-e-Nazar. He has also been the founder and editor of Aligarh Journal of English Studies. He has also been conferred upon with several literary awards, including the Sahitya Akademi Award and the Ghalib Award.
Browse this curated collection of most popular magazines and discover the next best read. You can find out popular magazines online on this page, selected by Rekhta for Urdu magazine readers. This page features most popular Urdu magazines.
See MoreJashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets