aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب "نکات مجنوں" مجنوں گورکھپوری کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، کتاب کے شروع میں مقدمہ ہے، جس میں تخلیق و تنقید کے مزاج و مزاق پر گفتگو کی گئی ہے، نقاد کی صفات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ میں کیوں لکھتا ہوں ، اس سوال کا جواب بہت خوبصورت انداز میں دیا گیا ہے، میر کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو کی گئی ہے، جس سے ان کے فن کی خوبیاں واضح ہوجاتی ہیں، قائم چاند پوری، مصحفی اور حضرت آسی کے فن پر وقیع گفتگو کی گئی ہے، ان کی شاعری کے موضوعات اور خصوصیات کو مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے، میر اثر کی مثنوی خواب و خیال اور نواب محبت خان کی مثنوی اسرار محبت کے محاسن پر گفتگو کی گئی ہے، مثنوی سحرالبیان کے ایک شعر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مثنوی کی خوبیاں اور میر حسن کے فن کی بلندی کو واضح کیا گیا ہے، فراق، عبدالمالک آردی، نیاز فتح پوری، عالم فتح پوری سے مجنوں گورکھپوری کی خطوط کے ذریعے کی گئی گفتگو بھی کتاب میں شامل ہے، جو علمی و تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے، تنقید کی خامیوں اور کوتاہیوں پر بھی مدلل انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
مجنوں گورکھپوری اردو کے ممتاز ترین نقاد ، شاعر، مترجم اور افسانہ نگار ہیں ، انہوں نے ترقی پسند ادب کوتنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مجنوں کی پیدائش ۱۰ ملکی جوت ضلع بستی میں ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی ۔ مجنوں کے والد فاروق دیوانہ بھی شاعر تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر تھے ۔ مجنوں کی ابتدائی تعلیم منجھر گاؤں میں ہوئی ۔ اوائل عمری میں ہی عربی ، فارسی اور ہندی میں دسترس حاصل کرلی تھی ۔ درس نظامیہ کی تکمیل کے بعد بی ، اے تک کی تعلیم گورکھپور ، علی گڑھ اور الہ آباد میں مکمل کی ۔ ۱۹۳۴ میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی میں اور ۱۹۳۵ میں کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم ،اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets