aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسر آل احمد سرور اردو ادب کی عظیم المرتبت شخصیت ہیں، انھوں نے ادب کے میدان میں کرہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔بقول شمس الرحمن فاروقی وہ کتاب پڑھتے پڑھتےخود کتاب بن گئے۔موجودہ نسل کے ادبی مذاق کو مرتب بنانے میں ان کے تنقیدی مضامین کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ سرور صاحب ایک کھلا ذہن رکھنے والے نقاد ہیں انہوں نے خود کو کسی گروہ سے وابستہ نہیں کیا اور کبھی آزادی فکر و نظر کا سودا نہیں کیا۔ انقلاب روس کے نتیجے میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو انہوں نے اس تبدیلی کو وقت کا تقاضا قرار دیا اور اس کا خیر مقدم کیا لیکن جب ترقی پسند ادب، ادب نہیں رہا تو وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں ادب کا مقصد نہ ذہنی عیاشی سمجھتا ہوں اور نہ اشتراکیت کا پرچارک۔ سرور صاحب کی تنقید ایک خاص وصف ان کا دلنشیں اسلوب ہے جس میں سادگی بھی ہے اور رعنائی بھی ان کی تنقید اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کیے بغیر تخلیق کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے جس سے تنقیدی بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور ایک طرح کا ذہنی سرور بھی۔زیر نظر کتاب عابد النساء کی تحریر کردہ سوانحی کتاب ہے اس کتاب میں انھوں نے پروفیسر آل احمد سرور کی شخصیت اور فن کو بیان کیا گیا ہے۔اس کتاب میں سات ابواب ہیں ان سات ابواب میں آل احمد سرور کی کم وبیش تمام ادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا اور سرور صاحب کی گراں قدر تصانیف کی عظمت اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free