aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ کتاب علم نفوس پر ہے جس کے مؤلف مولوی عبد الباری آسی ہیں۔ یہ علم دنیا کی کئی تہذیبوں اور ثقافتوں میں مروج رہا ہے۔ لیکن اس کا ایک مخصوص طریقہ اہل ہنود میں بھی رہا ہے۔ جسے اکثر جوگی اور گیانی کیا کرتے ہیں۔ یہ اس کے آخری مراتب اور درجات سے کام لیتے ہیں اور اس کے ابتدائی مراحل کو عوام الناس کے کام آ سکتے ہیں انہیں بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن یہ کتاب ان تمام مراحل کو ایک ترتیب سے بیان کرتی ہے۔ ساتھ اس علم کے کچھ قواعد بھی دیے گئے ہیں۔ یہ ایسے قواعد و ضوابط ہیں جنہیں تارک الدنیا اور اہل دنیا دونوں برت سکتے ہیں۔ اس کتاب کا کمال یہ ہے کہ اس موضوع پر عموماً کتابیں بڑی مشکل سے ملتی ہیں لیکن مصنف نے ہوتی تندہی اور جانفشانی سے اس کام کو کیا ہے۔ خاص طور پر انہوں نے جو مقدمہ لکھا ہے وہ اس موضوع پر معلومات کا خزانہ ہے۔
آسی الدنی
نام عبدالباری،آسی تخلص۔پہلا تخلص عاصی۔ ۱۸۹۳ء میں الدن، تحصیل ہاپوڑ، ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا محمد حسن محدث دیوبندی سے بھی بعض کتب حدیث وفقہ کا استفادہ کیا۔ ۱۹۰۸ء میں دہلی میں حکیم نواب جان سے کتب طب پڑھیں اور ان کے مطب میں نسخہ نویسی بھی کرتے رہے۔ ۱۹۱۲ء میں دفتر اخبار’’ہمدرد‘‘ دہلی میں کام کرتے رہے۔۱۹۱۰ء میں ناطق گلاوٹھی کے شاگرد ہوئے۔ ناطق نے سب سے پہلے ان کے تخلص میں اصلاح فرمائی یعنی ’عاصی‘ کے بجائے ’آسی‘ تجویز کیا۔ دسمبر ۱۹۱۳ء میں لکھنؤ چلے آئے اور مستقل سکونت یہیں اختیار کی۔ انھوں نے دو غزلوں پر براہ راست داغ سے بھی اصلاح لی تھی۔ آسی نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کی تصانیف کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ شرح دیوان غالب، ترجمہ وشرح دیوان حافظ، شرح تحفۃ الحراقین ، لخت اردو، تذکرہ خندۂ گل( ظریف شاعروں کا تذکرہ) ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ شعراء کی کافی تعداد نے آپ سے کسب فن کیا۔ ان میں شوکت تھانوی، شہید بدایونی، مجروح سلطان پوری قابل ذکر ہیں۔ ۱۰؍جنوری ۱۹۴۶ء کو آسی الدنی لکھنؤ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets