aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زاہدہ زیدی اردو ادب کی تاریخ میں خواتین تخلیق کار کی حیثیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ کہنے کو تو ان کی تخلیقات کا اصل حوالہ ان کے ڈرامے ہیں لیکن انہوں نے صنف شاعری کو بڑی سنجیدگی سے نبھایا ہے۔ ان کے ڈراموں پر تو تحقیق ہوئی اور ناقدین نے بھی اس پر بھرپور توجہ دی ہےلیکن ان کی شاعری کو وہ اتنی سنجیدگی سے نہیں پڑھا گیا جتنے کا وہ تقاضا کرتی ہے اور اس بات کا انہیں ملال بھی ہے اور شکوہ بھی۔ زیر نظر کتا ب ان کا پانچواں شعری مجموعہ ہے اور اپنی شعری تخلیقات کے حوالےسے انہوں نے جن مسائل کو منکشف کیا ہے اس میں گہرائی و گیرائی، ماورائیت اور تخلیقی عمل کی نوعیت ایک تکراری موضوع رہا ہے۔ اس کتاب میں ان کی نظمیں، غزلیں، سانحہٴ گجرات، سانحہٴ عراق، یاد رفتگاں اور بازدید شامل ہیں۔ یہ قاری سے سنجیدہ قراٴت کا مطالبہ کرتی ہیں۔
زاہدہ زیدی ایک ممتاز شاعرہ، ڈرامہ نگار،ناول نگار، محقق اور مترجم تھیں۔ مشہور شاعر مولانا حالی ان کے پر نانا تھے۔ ان کےوالد مستحسن حسین زیدی کیمرج یونیورسٹی میں پڑھے تھے اور میرٹھ کےایک ممتاز بیرسٹر تھے۔ 1936 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ زاہدہ اپنی چار بہنوں اور والدہ کےساتھ پہلے پانی پت میں چند سال رہیں اس کے بعد ان کی پوری تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی میں پروفیسر تھیں اس سے پہلے چند سال دہلی یونیورسٹی کے مرانڈا ہاوس اور لیڈی ارون کالج میں انگریزی کی لکچر رہیں۔ انھوں نے سماجی، نفسیاتی اور فلسفیانہ موضوعات پر انگریزی اور اردو میں 30 کتابیں تصنیف کیں۔ چیخوف، سارتر، بیکٹ، پراندلیو اور آئنسکو کی تخلیقی تحریروں کا ترجمہ اردو میں کیا۔ وہ خود بہت اچھی ڈرامہ نگار تھیں اور کئ ڈرامے خود پروڈیوس اور اسٹیج بھی کئے۔ ان کی بڑی بہن ساجدہ زیدی بھی ایک ممتاز شاعرہ اور ادیبہ تھیں
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets