aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"شیشے کے گھر"قرۃ العین حیدر کا دوسرا فسانوی مجموعہ ہے۔یہ مجموعہ 1954 میں منظر عام پر آیا،اس مجموعہ میں بارہ افسانے شامل ہیں،اس مجموعہ میں شامل افسانے زندگی کے حزنیہ پہلو کی غمازی کرتے ہیں،اس مجموعہ کے اکثر افسانے پاکستان میں لکھے گئے کیوں کہ اس وقت وہ پاکستان جا چکی تھیں،اس لیے اس مجموعہ میں شامل افسانوں میں ایک نئے ملک کی بو باس، ایک نئی زندگی کے آغاز کی داستان، زندگی کے نئے کرب اور نئے مسائل کی جھلک نظر آتی ہے،اس میں شامل افسانوں میں خود کلامی کی کیفیت پائی جاتی ہے،اور موضوعات کو تنوع قابل دید ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس مجموعہ کے افسانوں کے موضوعات فلسفیانہ ہونے کے ساتھ ساتھ رومانی بھی اور فلسفیانہ موضوعات میں صرف تنوع ہی نہیں گہرائی و گیرائی بھی ہے۔اس مجموعہ میں موجود افسانہ "جلا وطن"خود قرۃ العین حیدر کو بہت پسند تھا،انھوں نے اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا ہے جوthe exilesکے نام سے شائع ہوا ہے۔
قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets