aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دنیامیں بہت ہی کم ایسی کتابیں ہیں جنہیں عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی ہو اور کبھی اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہو ، انہی میں سے ایک ارسطو کی ’بوطیقا‘ یا ’فن شاعری ‘ ہے۔یہ کتاب دنیابھر میں نہ سہی البتہ یوروپ میں ادبی تنقید پر پہلی کتاب ہے ۔ شاید ہی کسی کتاب نے ادبی دنیا پر یا اردو ادب پر اتنااثر ڈالا ہوگا جتنا اس کتاب کا ہوا ۔ادبی تنقید میں ارسطو کی یہ کتاب صحیفہ آسمانی کے طور پر سمجھی جاتی ہے ۔جتنا آسمانی کتب کے تفاسیر اور شروحات لکھے گئے اسی طرح اس کتاب کے ایک ایک جملے کی تشریحات پر بے شمار مقالات و کتب لکھے گئے۔ زیر نظر اسی بوطیقا کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ مشہور ادیب و نقاد شمس الرحمن فاروقی نے کیا ہے۔ ترجمہ ایس ایچ بُچر کے انگریزی ترجمے والے ایڈیشن کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے۔ گمان یہ کیا جاتا ہے کہ ارسطو کا اصل یونانی متن ناپید ہے اور بچر نے عربی ترجمے سے مدد لے کر ترجمہ مکمل کیا ہے ۔ اردو ترجمہ کرنے میں سلاست کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے اور اس کے حواشی باریک بینی سے عمل میں لائے گئے ہیں۔ ترجمہ میں لفظاً و معناً دونوں طرح سے اصل متن سے قریب تر رہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ بُچر نے اپنے انگریزی ترجمہ میں تہمید کو الگ کرکے نہیں دیا ہے اور نہ ہی انہوں نے عنوانات لگائے تھے لیکن یہاں پر ان کے نہج کو ترک کرتے ہوئے علاحدہ تمہید اور عنوانات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ بنیادی مباحث کی وضاحت کے لیے ایک مختصر تعارف بھی دیا گیا ہے۔