aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
باقر مہدی اردو ادب میں ایک ایسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنے دور میں علم و ادب پر شاید ہی کوئی ایسی سنجیدہ کتاب ہو جس کا مطالعہ انہوں نے نہ کیا ہو۔ کوئی بھی نئی کتاب جیسے ہی شائع ہوتی تھی، وہ اسے پڑھنے کے لئے پریشان ہوجاتے تھے۔ زیر نظر کتاب ان کے منتخب تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے ترقی پسند ادب اور جدیدیت کے مابین کشمکش جیسے اہم موضوع کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں جدیدیت اور توازن، غالب: خوف پر قابو پانے کی ایک کوشش، یادوں کی برات، ایک جوان برگد کی موت (احتشام صاحب کا ایک ادھورا خاکہ) وغیرہ جیسے مضامین شامل ہیں۔ سنجیدہ ادبی تحاریر اور باقر مہدی میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے یہ کتاب اہم ہے۔
باقر مہدی رودولی (اودھ) یوپی کے ایک زمیندار گھرانے میں 11 فروری 1927ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد رزم رودولوی بھی شاعر تھے۔ ان کی والدہ کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ رودولی میں ہی ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ علی گڑھ سے ایم۔ اے۔ (معاشیات) کیا۔ بڑے شہروں کی خاک چھاننے کے بعد 1954ء میں ممبئی آگئے۔ ممبئی کے دانشوروں سے ملاقات رہی۔ پہلے ٹیوشن ذریعہ معاش بنایا۔ معاشیات تو ان کا سبجکٹ تھا۔ اردو اور فارسی پر عبور تھا۔ پی۔ ایچ ڈی۔ کے لئے تھیسس لکھنے کے دوران خیر النسا سے ملاقات ہوئی وہی ان کی بیوی بنیں۔ خیر النسا کافی مالدار ہیں۔ ممبئی کے پاش علاقے میں ان کا فلیٹ ہے۔ اسی میں باقر صاحب بھی رہتے تھے۔ شراب نوشی کی عادت نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اور سب سے الگ تھلگ رہنے والا باقر مہدی اکیلا ہی رہا۔ ان کی کسی کے ساتھ نہیں بنی۔ انانیت حد سے زیادہ تھی۔ ان کی غزلوں میں تعلی کے اندازنمایاں ہیں۔ عرفان ذات، خود شناسی تو شعروں کی خوبی ہے۔ مگر ان کا حد درجہ اور ضرورت سے زیادہ ہونا عیب سمجھا جاتا ہے اور ایسا انسان بزعم خویش ہمچو دیگرے نیست کی شرح و تفسیر بننے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے۔
اس ضمن میں ان کا ایک واقعہ سن لیں۔ باقر مہدی پاکستان کی ادبی پروگرام کے لئے گئے۔ وہ جس جگہ ٹھہرے تھے وہاں کچھ شاعر پہونچے۔ انہوں نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ ان کی بزم کی جانب سے ان کےاعزاز میں ایک اور پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ باقر نے بڑی بےرخی سے کہا: ’’آپ لوگوں نے ہماری کوئی کتاب پڑھی ہے۔ اگر نہیں، پھر آپ مجھے جانتے نہیں، تو پروگرام کرنا فضول ہے۔ آپ تشریف لے جاسکتے ہیں‘‘۔ ایسے تیز اور کٹیلے جملے کا استعمال کرتے تھے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے راستے پر چلتے تھے اور اس بات پر پابندی سے عمل کرتے تھے۔ اپنے گھر پر کسی شاعر یا ادیب سے جب بحث و مباحثہ ہوجاتا تو دروازے پر ہی واپس جاتے وقت اس کو کہہ دیتے کہ آپ میرے گھر نہ آئیں۔
باقر مہدی کا مزاج بڑا سخت تھا۔ جب ان سے شعراو ادباء ملنے کی غرض سے جاتے تھے وہ دروازہ کھول کر دیکھتے تھے کہ کون آیا ہے۔ وہ جس کو چاہتے تھے انہیں کو اندر آنے کے لئے کہتے تھے۔ ایک بار انور خاں ان سے ملنے گئے۔ انہوں نے تھوڑا سا دروازہ کھولا اور بند کرنے کی کوشش کی لیکن انور خاں بھی ضدّی تھے۔ وہ گھر میں گھس گئے۔ ان کے اس طرح آنے پر باقر صاحب ناراض نہیں ہوئے۔ ان سے بڑی عزت سے پیش آئے۔ خدمت بھی کی، اس کے بعد سے انور خاں کئی بار ان سے ملنے گئے۔
شاہد دہلوی مکتبہ جامعہ کے منیجر تھے وہاں اکثر شعرا اور ادباء آتے جاتے رہتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر ادبی بحثیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار وزیر آغا ممبئی آئے۔ انہوں نے شاہد صاحب سے کہا ’’مجھ کو باقر صاحب سے ملنا ہے‘‘۔ شاہد صاحب نے کہا باقر کسی بھی وقت یہاں آسکتے ہیں۔ وزیر آغا آس پاس میں گھومتے رہے۔ باقر مہدی آئے تو انہوں نے وزیر آغا کے آنے کی خبر کی۔ لیکن باقر نے لاپروائی برتی اتفاق سے وزیر آغا آگئے۔ انہوں نے سلام کیا۔ مصافحہ کیا۔ بیچارے بڑی گرمجوشی سے ملے مگر باقر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ ایک کونے میں دور جاکر کھڑے ہو کر کوئی کتاب پڑھنے لگے۔ وزیر آغا نے کئی بار بڑی عاجزی سے ملنے کی کوشش کی۔ آخر وہ پگھل گئے۔ وزیر آغا نے کیسے ان کو شیشے میں اتار لیا؟ وزیر آغا جب تک رہے ان کے ساتھ رہے۔
باقر خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ دو تین آدمی کو بھی خوش نہیں رکھ سکتے، اس پر خامہ بگوش نے لکھا تھا، لیکن یہ درست نہیں کہ وہ دو تین آدمیوں کو بھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ ہم کم ازکم تین ایسے آدمیوں کو جانتے ہیں جنہیں باقر مہدی نے ہمیشہ خوش رکھا ہے۔ ان میں سرفہرست تو باقر مہدی خود ہیں۔ حسن اتفاق دوافراد کا نام بھی باقر مہدی ہی ہے۔ وہ دوسروں کو تو رسواکرتے تھے اور خود کو بھی رسوا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ خلیل الرحمٰن اعظمی انہیں فالتو آدمی کہتے ہیں اور سردار جعفری انہیں سی آئی اے کا ممبر۔ راجہ مہدی علی خاں نے تو انہیں نظم میں یہ کہہ دیا تھا۔
باقر مہدی کا ادب میں ایک مقام تھا اسی لیے پھر بھی لوگ ان سے قریب رہنا چاہتے تھے۔ آخری وقت میں زباں پر فالج کا اثر ہوا اور صاف بات کرنے سے قاصر ہوگئے۔ پہلا شعری مجموعہ ’’شہر آرزو‘‘ شائع ہوا۔ اردو میں باقر مہدی بحیثیت تنقیدنگار کافی مشہور تھے۔ وہ انگریزی کی طرح اردو میں تنقید کرتے تھے۔ ہر مضمون میں کوئی نئی بات کہنے کی کوشش میں لگے رہے۔ اور ہم لوگ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کے مصداق من وعن قبول کرتے رہے۔ وہ بھی کسی گروپ میں نہیں رہے، نہ کسی سے سبقت لے جانے کی تگ و دو کی، نہ انعام واکرام حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کے کسی آدمی کو خوش آمد کی۔
بڑے تلخ مزاج تھے۔ کسی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ بے جاتعریف کرنے اور کرانے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوتے تھے لیکن کامیاب تنقیدنگار اور باشعور شاعر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی ان کا احترام کرتا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets