aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تذکرہ ایک مرکب صنف ادب ہے۔ اصطلاحاً اس لفظ کا اطلاق اس کتاب پر ہوتا ہے جس میں شعرا کے مختصر احوال اوران کا منتخب کلام درج کیا گیا ہو علاوہ ازیں شعرا کے کلام پر مختصر الفاظ میں تنقیدی رائے بھی دی گئی ہو۔زیر نظر کتاب "تذکرۂ گلشن بے خار" محمد مصطفی خاں شیفتہ کا لکھا ہوا تذکرہ ہے،جو کہ ان کی سخن فہمی کا ثبوت ہے، جس میں ہر شاعر کے کلام کے متعلق انہوں نے بڑی نپی تلی رائیں لکھی ہیں۔ خود ان کے معاصران کے مذاق سخن کے معترف و مداح تھے۔ تذکرہ گلشن بے خار ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے اور یہی وہ پہلا تذکرہ ہے جس میں انصاف اور آزادی کے ساتھ اشعار کی تنقید کی گئی ہے۔محمد مصطفی خاں شیفتہ شعر گوئی اور سخن فہمی کا بڑا اعلی مذاق رکھتے تھے۔ متانت تہذیب اور سنجیدگی ان کے یہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، وہ کسی موضوع پر تہذیب کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے ۔
شیفتہؔ محمد مصطفی خاں شیفتہؔ شعر گوئی اور سخن فہمی کا بڑا اعلی مذاق رکھتے تھے ۔ گرمی اور لذت کے علاوہ جو ان کے کلام میں خدا دادہے اس میں وہ شکوہ الفاظ اور چشستی ترکیب بھی پائی جاتی ہے جو کسی وقت سوداؔ اور نصیرؔ کا حصہ تھی کلام میں بندش الاظ اور ترکیب روش وار رعایت اسی طرح کی ہے جو غالب اور خاص کر مومنؔ میں پائی جاتی ہے ۔ متانت تہذیب اور سنجیدگی ان کے ہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہے کسی موع پر تہذیب کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے خود کہتے ہیں ۔ یہ بات تو غلط ہے کہ دیوان شیفتہؔ ہے نسخۂ معارف و مجموعۂ کمال لیکن مبالغہ تو ہے البتہ اس میں کم ہاں ذکر خدوخال اگر ہے تو خال ہے ان کی سخن فہمی کا ثبوت ان کی مشہور تذکرۂ گلشن بے خار(1250ھ مطابق1834ء) ہے جس میں ہر شاعر کے کلام کے متعلق انہوں نے بڑی جچی تلی رائیں لکھی ہیں خود خود ان کے معاصران کے مذاق سخن کے معترف و مداح تھے ۔ حالیؔ نے بہت کچھ شیفتہؔ ہی کے فیض صحبت سے حاصل کیا ہے تصوف کے مضامین ، پند و حکمت ، مومنؔ کی سی نزاکت خیال اور ہلکی شوخی و ظرافت ان کے یہاں خاص چیز ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets