aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو تحقیق کی روایت میں مالک رام کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کا ایک نمایاں وصف ان کی غالب شناسی ہے۔ لیکن زیر نظر کتاب ان کے ایک تذکرے پر مبنی یے جو انہوں نے اپنے معاصرین پر قلمبند کیا تھا۔ یہ تذکرہ کل چار جلدوں میں ہے اور یہ اس کی تیسری جلد ہے جس میں انہوں 1974 اور 1975 میں وفات پانے والے ادبا کے حالات اور کلام کا ذکر کیا ہے۔ مالک رام کے یہ تذکرے کئی معنوں میں اردو کی ادبی تاریخ کا اہم جز ہیں جس میں انہوں نے الگ الگ ادوار کے ادبا، شعرا اور صحافیوں کے حالات شائع کیے ہیں۔ بیسویں صدی کے اردو ادب کے مؤرخین کے لیے یہ تذکرے انتہائی وقیع دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مالک رام کا پورا نام مالک رام برنیمیہ ہے۔ ان کی پیدائش 1906ء میں قصبہ پھالیاں، ضلع گجرات میں ہوئی جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ ’’ارمغان مالک‘‘ میں سید علی جوادزیدی نے ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں یہ اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ:۔
’’مالک رام کی ولادت دسمبر 1906ء میں ہوئی۔ صحیح تاریخ کا تعین مشکل ہے لیکن خاندانی روایات اور بعض دوسرے قرائن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 8 یا 22 دسمبر رہی ہوگی۔ ان دونوں میں بھی 22دسمبر کی تاریخ قابل ترجیح ہے۔ کاغذات سرکاری میں غلطی سے 8 مارچ 1907ء درج ہوگئی اور یہ غلطی تکرار کے باعث شہرت عام کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔‘‘
مالک رام کے والد کا نام لالہ نہال چند تھا جو اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ویسے ان کے چاربھائی تھے۔ والد محکمہ سپلائی میں ملازم ہوئے۔ انگریز اور چین کے مابین جنگ میں وہ چین گئے اور سات سال تک وہاں قیام کیا۔ اس ذیل میں بھی علی جواد زیدی لکھتے ہیں:۔
’’چین جانے سے پہلے 1896ء یا 1895ء میں صرف ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، شیرداس۔ چین سے واپسی کے دوسال بعد ایک اور بیٹا پیدا ہوا مالک رام۔ دونوں بھائیوں میں کوئی دس برس کی بڑائی چھٹائی تھی۔ ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن وہ صرف تین مہینے زندہ رہ کر اللہ کو پیاری ہوگئی۔‘‘
نہال چند کی شادی بھگوان دیوی سے ہوئی، جو موضع سوہارو کی تھیں۔ یہ بڑی حوصلہ مند خاتون تھیں۔ شوہر کا انتقال جب ہوا تو اس وقت ان کے دوکمسن بچے تھے جن کی تعلیم وتربیت کا بار ان ہی کے سر رہا۔ مالک رام جب بارہ دن کے تھے تو ان کے والد ہیضے کا شکار ہوگئے۔ اہلیہ بچوں کے ساتھ میکے آگئیں۔ اس طرح مالک رام کی ابتدائی تعلیم گردوارہ پھالیاں میں ہوئی، جہاں انہوں نے گرمکھی سیکھی اور گروبانی کی تعلیم حاصل کی۔ چھ برس کے ہوئے تو ورنکلر ہائی اسکول میں داخل کئے گئے۔ 1920ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا پھر ڈائمنڈجبلی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1924ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرلیا۔ 1926ء میں انٹرمیڈیٹ ہوئے اور اس کے بعد لاہور چلے گئے۔ وہاں کے آئی وی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج سے 1930ء میں تاریخ میں ایم اے کیا۔ تب نائیٹ کالج سے وابستہ ہوگئے۔ 1933ء میں ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ ذہین طالب علم تھے اس لئے انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں مضمون نویسی کے مقابلے میں اوّل انعام حاصل کیا۔ ابتدا میں انہوں نے ایک انجمن ’’بزم ادب‘‘ بھی قائم کی، جہاں ہر ہفتے ایک طرف نشست کا اہتمام ہوتا۔ اسی دوران انہوں نے ایک مضمون ’’ذوق اور غالب‘‘ قلمبند کیا، جو ’’نگار‘‘ میں شائع ہوا۔ پھر ان کی صحافتی زندگی شروع ہوئی اور رسالہ ’’نیرنگ خیال‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ اسی زمانے میں ’’اقبال نمبر‘‘ شائع ہوا۔ موصوف نے عبدالرحمٰن بجنوری کے انگریزی مضامین جو ’’اسرارخودی‘‘ اور رموزبیخودی‘‘ سے متعلق تھے، اردو میں ترجمہ کیا اور ان پر حواشی قلمبند کئے۔ یہ مخصوص شمارہ خود علامہ اقبال کو پسند تھا اور مالک رام کی اسی وقت سے ستائش شروع ہوگئی۔ 1937ء تک وہ ’’نیرنگ خیال‘‘ سے وابستہ رہے۔ 1931ء میں ان کی شادی ودیاوتی سے ہوئی، جن سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ بیٹوں کے نام مسلمانوں کے قاعدے سے آفتاب اور سلیمان رکھا۔ ایک بیٹی کا نام بشریٰ اور دوسری بیٹیوں کے نام اوشا اور ارونا رکھے۔ پھر وہ بھارت ماتا سے وابستہ ہوگئے۔ لیکن 1936ء سے تلاش معاش کے سلسلے میں دہلی آگئے۔ 1939ء میں حکومت ہند کے محکمہ تجارت سے وابستہ ہوئے۔ پھر مسلسل ترقی کرتے گئے۔ 1939ء میں اسکندریہ کے انڈین گورنمنٹ ٹریڈ کے دفتر میں سپرٹنڈنٹ ہوگئے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو وہ انڈین فارن سروس میں آگئے۔ اس کے نتیجے میں مصر، عراق، ترکی، بلجیم اور کئی دوسری جگہوں پر ان کی پوسٹنگ ہوتی رہی۔ 1965ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ انہوں نے مولانا آزاد کی تصانیف کی ترتیب کا کام بڑے سلیقے سے انجام دیا۔ پھر ایک علمی وادبی انجمن قائم کی جس کا نام ’’علمی مجلس‘‘ رکھا۔ ان کی تالیفات و تصنیفات جس کی تفصیل ساحد احمد نے اپنی کتاب ’’خیرخواہان علم و زباں‘‘ میں درج کیا ہے وہ اس طرح ہیں:۔
’’(1)اسلامیات (2)المراۃ فی الاسلام (3)افکارمحروم (4)اعلان الحق (5)تذکرۂ ماہ سال (6)تذکرۂ ماہ و سال (چار جلدیں) (7)توبتہ النصوح (8)تذکرہ (9)ترجمان القرآن (چار حصے) (10)تذکرہ ادہائے اردو (11)تذکرۂ جوش ملسیانی (12)تحقیقی مضامین (13)تلامذۂ غالب (14)جگر بریلوی: شخصیت اور فن (15)حموربی اور بابلی تہذیب و تمدن (16)خطوط غالب (17)خطوط ابوالکلام (18)خطبات آزاد (19)دیوان فدا (20)دیوان غالب (21)ذکرغالب (22)رشید احمد صدیقی نمبر (تحریر) (23)سیدین نمبر (24)عورت اور اسلامی تعلیم (25)عرش ملسیانی نمبر (26)عیارغالب (27)غبارخاطر(28)فسانہ غالب (29)کلام آہ (30)کربل کتھا (31)کچھ مولانا آزاد کے بارے میں (32)گل رعنا (33)گفتارغالب (34)نذرمختار (35)نیرنگ خیال(36)نذرذاکر(اردو)(37)نذرذاکر(انگریزی) (38)نذرعبدالحمید (اردو) (39)نذرعبدالحمید (40)نذر کرنل زیدی(اردو) (41)نذرکرنل زیدی (انگریزی) (42)نذرعرشی (43)نذرعابد (44)یادگارغالب (45)یادگارغالب(فارسی) وغیرہ۔ ممکن ہے اور بھی بہت کچھ تحریریں طبع یا غیر طبع موجود ہوں جن تک میری رسائی نہ ہوسکی۔‘‘
مالک رام کا انتقال 1993ء میں ہوا۔ انہیں متعدد انعامات ملے جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ہے۔ قومی یکجہتی کے سلسلے میں 1986ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین عالمی انعام حاصل کیا۔ مالک رام جامعہ اردو کے پرووائس چانسلر بھی مقرر ہوئے اور غالب اکیڈمی کے ممبر اورانجمن ترقی اردو کے صدر بھی رہے۔ 1946ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ کے رکن کی بھی حیثیت حاصل ہوئی۔
مالک رام کی حیثیت ایک محقق کی ہے۔ وہ ماہرغالبیات کی حیثیت سے پوری اردو دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی صف امتیازعلی عرشی اور قاضی عبدالودود کی صف ہے۔ غالب کے سلسلے کی اہم کتابیں جو ان کی تحقیقی کاوش کا نتیجہ ہیں وہ ہیں ’’ذکرغالب‘‘، ’’فسانہ غالب‘‘ اور ’’تلامذہ غالب‘‘۔ انہوں نے غالب کی سوانح کو بھی ایک محقق کی نظر سے دیکھا اور بڑے وزن ووقار کے ساتھ مرتب کیا۔ اس سلسلے میں ’’سبدچیں‘‘، ’’دستنبو‘‘، ’’کلیات نظم غالب‘‘(فارسی) ’’دیوان غالب‘‘، ’’گل رعنا‘‘، ’’خطوط غالب‘‘ اور ’’یادگارغالب‘‘ کا بھی ذکر کیا جانا چاہئے۔ پھر متعدد مضامین کے ذریعہ غالبیات کے باب میں گرانقدر اضافے کئے ہیں۔ ویسے قاضی عبدالودود نے متعدد اعتراضات کئے ہیں۔ ہر چند کہ وہ اعتراضات اہم ہیں پھر بھی مالک رام کی مساعی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مالک رام نے ’’غبارخاطر‘‘ اور ’’خطبات‘‘ بھی مرتب کیا۔ یہ کتابیں ساہتیہ اکادمی نے شائع کیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets