aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کشمیر کئی صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ اس سرزمین سے علم و ادب کے درخشاں موتی نکلے۔ مرکزی ادبی سرگرمیوں سے دور ہونے کی باعث اسے اہل تحقیق کی وہ توجہ نہ مل سکی جس کا یہ مستحق تھا۔ اس حوالے سے اس علاقے پر تحقیق کا جتنا کام ہوا، یہیں کے اہل علم نے انجام دیا۔ یہ کتاب اسی نوعیت کی ہے جو کشمیر کے فارسی ادبا کا تذکرہ پیش کرتی ہے۔ یہ دو جلدوں میں ہے؛ پہلی جلد میں الف تا شین اور دوسری جلد میں صاد تا یا کا احااطہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں میں کم و بیش کشمیر کے تین سو زائد فارسی شعرا کے تذکرے کیے گئے۔ اسے کشمیر کے فارسی ادب پر سب سے بڑا ذخیرہ کہا جاسکتا ہے۔
پیرحسام الدین راشدی پاکستان کے نامور محقق، ادیب اور دانشور پیرحسام الدین راشدی 20 ستمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مولوی محمد سومار اور مولوی محمد الباس پنہور سے حاصل کی۔ چوتھے درجے تک پڑھنے کے بعد ذوق مطالعہ کو اپنا رہبر بنایا اور ذوق کتب خوانی اور اخبارات نے ان پر علم کے دروازے کھول دیئے۔ شروع میں انہوں نے صحافت کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی اخبارات سے منسلک رہے مگروہ جلد ہی صحافت سے منہ موڑ کر ذوق مطالعہ کی تسکین میں محو ہوگئے اور نادر و نایاب مخطوطات اور مطبوعہ نسخوں کو جمع کرکے ان کا مطالعہ کرنے کا مشغلہ اختیار کیا۔ سندھ پر ان کا احسان عظیم یہ ہے کہ انہوں نے سندھ کے اکثر فارسی مخطوطوں اورسندھ کی تاریخ کو مدون کیا اور اس طرح انہیں محفوظ کردیا۔ ان کے حواشی کو معلومات اور تحقیق کی انسائیکلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے۔ مقالات الشعرا، تکملہ مقالات الشعرا، تحفۃ الکرام، مکلی نامہ اور مظہر شاہجہانی ان کی مدون کی گئی وہ کتابیں ہیں جن پر مفید حواشی لکھ کر انہوں نے تاریخ سندھ کی بہت سی گتھیوں کو سلجھایا ہے۔ ان کی علمی اور تاریخی خدمات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اتنا کام کیا ہے جو ایک ادارے کے انجام دینے کا تھا۔ ٭یکم اپریل 1982ء کو پیرحسام الدین راشدی اپنے خالق حقیقی جاملے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets