aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"طوطا کہانی" یہ کتاب مختلف کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے، جس کی سب کہانیاں ایک طوطے کی زبانی بیان کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں 35 کہانیاں ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک عورت اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے محبوب سے ملنے جانا چاہتی ہے۔ طوطا ہر روز اس کو ایک کہانی سنانا شروع کر دیتا ہے اور ہر روز باتوں باتوں میں صبح کر دیتا ہے۔ اور وہ اپنے محبوب سے ملنے نہیں جا سکی، حتی کہ اس دوران اس کا شوہر آجاتا ہے۔ کتاب کے اسلوب میں سادگی کے ساتھ ساتھ حیدری نے عبارت کو رنگین بنانے کے لیے قافیہ پیمائی سے بھی کام لیا ہے۔ اس کے علاوہ موقع اور محل کے مطابق اشعار کا بھی استعمال کیا ہے۔زیر نظر نسخہ کو کارکنان مجلس ترقی ادب لاہور نے بہت ہی اہتمام سے مرتب کیا ہے، جس میں محمد اسماعیل پانی پتی اور وحید قریشی کا بیش قیمت مقدمہ ہے جس میں طوطا کہانی کے سنسکرت سے فارسی اور اردو کی طرف آمد کا تحقیقی ذکر ہے۔ نیز مختلف طوطا کہانیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حیدری فورٹ ولیم کالج کے مصنفوں میں سب سے زیادہ کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔ نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ شاعر بھی ہیں لیکن ان کی شہرت کا مدار نثری تصانیف پر ہی ہے۔
ان کا نام حیدر بخش اور تخلص حیدریؔ ہے۔ سید ابوالحسن کے بیٹے تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے۔ حیدر بخش نے ابھی بچپن سے آگے قدم نہیں رکھا تھا کہ ان کے والد کو ایسی معاشی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ مجبوراً دہلی کی سکونت ترک کر کے اہل و عیال کے ساتھ بنارس چلے گئے۔ یہاں نواب ابراہیم خاں ناظم عدالت تھے۔ وہ اس خاندان کی مدد پر کمربستہ ہوئے۔ انہوں نے ہی حیدر بخش کی تعلیم کا بندوبست کردیا۔ بنارس کے مشہور مدرسوں میں انہوں نے مروجہ تعلیم حاصل کی تعلیم سے فارغ ہو کر دفتر عدالت میں برسرکار ہوگئے۔
ملازمت کے ساتھ مطالعے اور تصنیف و تالیف کا شوق بھی جاری رہا۔ حیدریؔ نے قصہ مہروماہ کے نام سے ایک کہانی لکھی اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں اسے لے کر کلکتہ چلے گئے۔ وہاں گلکرسٹ کی خدمت میں باریاب ہوئے اور اپنی کتاب پیش کی جسے انہوں نے بہت پسند کیا اور منشی کی حیثیت سے حیدری کالج کے ملازمین میں داخل کر لیا۔ وہاں رہ کر انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں اور ترجمہ کیں۔ آخرکار ملازمت سے سبکدوش ہو کر بنارس واپس چلے گئے۔ وہاں 1823ء میں وفات پائی۔
شاعری کے علاوہ انہوں نے جو کتابیں لکھیں ان میں سے اہم ہیں۔ قصۂ مہروماہ، لیلیٰ مجنوں، ہفت پیکر، تاریخ نادری، گلشن ہند، طوطا کہانی، آرائش محفل اور گل مغفرت۔ ان میں سے آخری تین کتابوں نے بہت شہرت پائی۔
طوطا کہانی سید محمد قادری کی ایک فارسی کتاب کا ترجمہ ہے۔ سنسکرت کی ایک پرانی کتاب کا مولانا ضیا الدین بخشی نے فارسی میں ترجمہ کیا۔ قادری نے اس کا خلاصہ کر دیا۔ اس خلاصے کو حیدری نے اردو کا روپ دے دیا۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔
آرائش محفل حاتم طائی کے فارسی قصے کا ترجمہ اور خلاصہ ہے۔ ملا حسین واعظ کاشفی کی کتاب روضہ الشہدا کا ایک ترجمہ تو فضلیؔ نے کربل کتھا کے نام سے کیا تھا۔ دوسرا ترجمہ اور خلاصہ حیدری کی آرائش محفل ہے۔ میرامن کا رجحان بول چال کی زبان اور ہندی کی طرف زیادہ ہے۔ اس کے برعکس حیدری کا جھکاؤ فارسی کی طرف ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets