aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
" تفتہ اور غالب "ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری کی مایہ ناز تصنیف ہے ،عام طور پر تفتہ کی اہمیت غالب کے شاگرد ہونےکی ہے جب کہ حقیقت وقت یہ ہے کہ ہرگوپال بھٹناگر سکندر آباد حیدرآبادی متخلص تفتہ فارسی کے مشہور استاد گزرے ہیں۔ کلام کی مقدار شعر اور معیار یار کے پہلو سے ہندوستان کے بہت کم فارسی گو ان کا مقابلہ کر سکتے تھے ،غالب کے خطوط سب سے زیادہ تفتہ ہی کے نام ہیں جو غالب اور تفتہ کے تعلقات کو واضح کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط سے یوں معلوم ہوتا ہے گویا دونوں ایک ہی خاندان کے فرد ہیں ایک دوسرے کے معاملات میں شریک ،نجی مسائل میں مشورہ، لین دین، آپسی دکھ درد میں شریک، غرض یہ کہ غالب کا دوسرا کوئی شاگرد ان کے اتنا قریب نہیں تھا ،زیر نظر کتاب میں تفتہ کی حالاتِ زندگی ،غالب سے ان کے تعلقات ،تفتہ کے کلام پر غالب کی اصلاح ،تذکرہ نگاروں کی نظر میں تفتہ وغیرہ موضوعات کا تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔