aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
لسانیات کی ایک اہم شاخ صوتیات ہے۔جس کے تحت کسی بھی زبان کا صوتی و لسانی جائزہ لیا جاتا ہے۔بقول گوپی چند نارنگ" اہل علم و ادب ،اکثر اساتذہ و طلبہ کو لسانیات تو درکنار ،صوتیات کے بنیادی اصولوں تک سے واقفیت نہیں ہوتی۔پچھلے دو تین برسوں میں دہلی یونی ورسٹی میں امریکی ،روسی اور ایرانی طلبا کو اردو پڑھانے کا اتفاق ہوا اور یہ بات بار بار محسوس کی گئی کہ جب تک صوتیات سے مدد نہ لی جائے،ابتدائی کام کی بنیاد مضبوط رکھی ہی نہیں جاسکتی۔"اسی ضرورتوں کے پیش نظر اس مختصرکتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس موضوع سے متعلق اہم مواد فراہم کیا ہے۔جس میں انھوں نے تعلیم زبان کی نوعیت سے بحث کرنے کے بعد صوتیات اور استعمال اصوات کے اصول بیان کیےہیں۔مثالوں اور نقشوں کے ذریعے اردو آوازوں کے فرق اوران کے مخارج کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔کتاب میں ان اصطلاحوں کو درج کیا گیا ہے جو اردو میں کچھ کچھ رواج پاچکی ہیں یا عام فہم ہیں۔اس کے ساتھ ان اصطلاحوں کے انگریزی مترادفات بھی ساتھ ساتھ درج کردئیے گئے ہیں۔
گوپی چند نارنگ اردو کے ایک بڑے نقاد، تھیوریسٹ اور ماہر لسانیات ہیں۔ ایک ادیب، نقاد، اسکالر اور پروفیسر کے طور پر انہیں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ایک جیسی مقبولیت حاصل ہے۔ گوپی چند نارنگ کے نام یہ انوکھا ریکارڈ ہے کہ انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ممتاز ستارہ امتیاز (اعلیٰ کارکردگی) اور حکومت ہند کی طرف سے پدم بھوشن اور پدم شری سے نوازا گیا ہے۔
ان کے کاموں کے لیے انہیں اور بھی کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ جن میں اٹلی کا مزینی گولڈ میڈل، شکاگو کا امیر خسرو ایوارڈ، غالب ایوارڈ، کینیڈین اکیڈمی آف اردو لینگویج اینڈ لٹریچر ایوارڈ، اور یورپی اردو رائٹرز سوسائٹی ایوارڈ شامل ہیں۔ ساہتیہ اکادمی نے انہیں 2009 میں اپنی باوقار فیلوشپ سے بھی نوازا تھا۔
نارنگ نے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کا شمار اردو کے مضبوط حامیوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ اس حقیقت پر افسوس کرتے ہیں کہ اردو زبان سیاست کاری کا شکار رہی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں اور ہندی دراصل اردو زبان کی بہن ہے۔