aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مصنف اردو کے ممتاز مرثیہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی مرثیہ نگاری میں منظر کشی، واقعہ نگاری، صبرو تحمل، ضبط ، جرأت، ہمت ، دلیری اور سرفروشی کا ذکر خاص طور پر ہوتا ہے ۔یوں تو مرنے والی کی خوبیوں پر عمومی مرثیہ ہوتا ہے مگر واقعہ کربلا کی منظر کشی مصنف کی خاص پہچان ہے۔ ان کی یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ "دکنی مرثیہ گوئی پر اجمالی تبصرہ " پر محیط ہے۔ اس میں سولھویں صدی کی مرثیہ گوئی سے لے کر بیسویں صدی تک اردو مرثیہ کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ " شمالی کی مرثیہ گوئی پر اجمالی تبصرہ " پر مشتمل ہے۔ اس میں بھی اٹھارویں صدی کی مرثیہ گوئی سے بیسویں صدی کی ربع ثانی تک کی تاریخ پر کلام کیا گیا ہے۔ مصنف نے "پیش لفظ" میں مرثیہ اور اس کی تواریخ اور کربلا کے واقعہ پر دقیق بات کی ہے۔ آخر میں "فرہنگ" کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معانی دے کر مشمولات کو سمجھنا آسان بنادیا گیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free