aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو تنقید کا منظرنامہ بہت دلکش بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ ادب میں تنقید کے کئی رنگ نظر آتے ہیں اور ہر رنگ کو اسرار ہے کہ وہی تنقید کا سب سے زیادہ سچا اور موزوں رنگ ہے۔ زیر نظر کتاب اردو میں کلاسیکی تنقید ہے۔ یہ عنوان چشتی کی تحقیقی اور تنقیدی کتاب ہے۔ اردو ادب میں عنوان چشتی ایک دانشور، سیرت نگار، شاعر، ماہر عروض اور استاد شاعر کے طو ر پر جانے جاتے ہیں۔ مذکورہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کی شروعات میں ایک جامع مقدمہ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے تحقیق و تنقید کے فرق کو واضح کرتے ہوئے ان کی تعریف بیان کی ہے۔ باب اول "عروض میں صورت اور نام کے رشتے" کے عنوان کے تحت وتد مجموعی اور مفروقی کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک باب میں مراثی دبیر کا عروض کی روشنی میں جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
نام افتخار الحسن، ڈاکٹر اورتخلص عنوان تھا۔وہ۱۹۳۵ء قصبہ منگلور، ضلع سہارن پور(اترانچل) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (جغرافیہ) ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لکچرر،ریڈر، پروفیسر اور صدرشعبہ اردو رہے اور وہیں پر ڈین فیکلٹی کے منصب سے ۱۹۹۷ میں ریٹائر ہوئے۔ انھیں ابراحسنی گنوری سے تلمذ حاصل تھا۔ وہ یکم فروری ۲۰۰۴ء کو نوئیڈا میں انتقال کرگئے۔ انھوں نے تقریبا چالیس علمی اور ادبی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں: ’ذوق جمال‘، ’نیم باز‘(شعری مجموعے)، ’عکس وشخص‘(شخصیات)، ’تنقیدی پیرائے‘، ’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے‘، ’اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت‘، ’عروض اور فنی مسائل‘، ’تنقید سے تحقیق تک‘، ’مکاتیب احسن‘(مقدمہ وحواشی ۔جلد اول ودوم)، ان کو اردو اکادمی ، دہلی نے ۱۹۹۱ء میں اردو شاعری ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ ان کو مختلف اداروں ، انجمنوں اور اکادمیوں نے متعدد ایوارڈ عطا کیے۔ موصوف ایک دانشور، سیرت نگار، تنقید نگار، شاعر، ماہر عروض اور استاد شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:303
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets