آباد ہے اندیشوں سے دل کیا کیا جائے
آباد ہے اندیشوں سے دل کیا کیا جائے
کیا فکر کو آمادۂ صحرا کیا جائے
اب لطف مجھے دینے لگے پاؤں کے چھالے
دشوار مرا اور بھی رستہ کیا جائے
ادراک تحیر کے کھلیں مجھ پہ بھی رستے
میں اپنی خبر لوں مجھے تنہا کیا جائے
آئینے کے چہرے سے ہٹے گرد کسی طور
اب سامنے میرے مرا چہرہ کیا جائے
حصے میں مرے آ تو گئی درد کی سوغات
اب چل کے ذرا شکر کا سجدہ کیا جائے
کیا اتنا بڑا جرم تھا دل اس سے لگانا
کیا تھا یہ مناسب مجھے رسوا کیا جائے
اتنی بھی نگاہوں پہ نہ ہو جلووں کی بندش
اتنا بھی نہ ان آنکھوں سے پردا کیا جائے
کیا عرض طلب کے لئے منہ کھولنا یاور
بس ختم خموشی پہ یہ قصہ کیا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.