آداب جنوں اہل نظر بھول گئے ہیں
جیتے تو ہیں جینے کا ہنر بھول گئے ہیں
کیا اہل سفر ذوق سفر بھول گئے ہیں
رستے میں ہیں منزل کی خبر بھول گئے ہیں
غم بھول گئے غم کا اثر بھول گئے ہیں
تم کیا ملے ہم خود کو مگر بھول گئے ہیں
ہجرت کے عذابوں میں بسر ایسی ہوئی ہے
اک عمر سے ہم اپنا نگر بھول گئے ہیں
دنیا کے غم اپنوں کے ستم وقت کے تیور
کیا کیا نہ مرے دیدۂ تر بھول گئے ہیں
طوفاں پہ ہی رکھتے ہیں نظر اہل زمانہ
موجوں کی سیاست کو مگر بھول گئے ہیں
وہ گرمیٔ حالات نہ ذہنوں میں وہ ہلچل
کیا حادثے آنا ہی ادھر بھول گئے ہیں
کیا بات تھی قاتل سے جو منسوب ہوئی تھی
مقتل میں جھکائے ہوئے سر بھول گئے ہیں
گلشن کی فضاؤں میں گھٹن آ گئی کتنی
ہنسنے کی ادا تک گل تر بھول گئے ہیں
جو ڈال رہے تھے کبھی سورج پہ کمندیں
وہ لوگ اجالوں کا سفر بھول گئے ہیں
آغاز سفر اپنا کیا ہم نے جہاں سے
ہم رکھ کے وہیں زاد سفر بھول گئے ہیں
تم اگلی شرافت کا سبق پھر سے پڑھانا
اس دور کے انسان اگر بھول گئے ہیں
عارفؔ میں گلہ کس سے کروں بے اثری کا
طالع ہی مرے باب اثر بھول گئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.