آدمی شہر سے نکلتا ہے
قطرہ اب بحر سے نکلتا ہے
اس قدر نفرتوں کی عادت ہے
دم مرا مہر سے نکلتا ہے
جو ترے عشق میں ہے محو رقص
وہ کب اس لہر سے نکلتا ہے
ہے پسند دھوپ میں اسے رہنا
دل ترے سحر سے نکلتا ہے
آپ اب خواب میں نہیں آتے
خواب اب قہر سے نکلتا ہے
اس قدر خوف ہے کہ سورج بھی
آج دوپہر سے نکلتا ہے
زندگی دیکھتی ہے حیرت سے
کام جب زہر سے نکلتا ہے
خون فرہاد کا ہے یہ ورنہ
دودھ کب نہر سے نکلتا ہے
آنکھ میں اشک ہیں خضرؔ میرے
چشمہ اب دہر سے نکلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.