آدمی تھا کیا وہی اک کام کا
آدمی تھا کیا وہی اک کام کا
ارض پر جس کا کوئی مسکن نہ تھا
جو کسی نے پیرہن مجھ کو دیا
وہ مرے ہی تن کا حصہ بن گیا
ہم تھے جڑواں اس لئے تن ایک تھا
ایک سرجن نے الگ ہم کو کیا
جل میں جب تک میں رہا زندہ رہا
تٹ پہ ساگر کے میں آ کر مر گیا
جب کبھی میں سوچنے کچھ لگ پڑا
دور تک پھر سلسلہ چلتا رہا
میں زمیں پر اک طرح کا بوجھ تھا
وہ تو ماں تھی اس کو یہ سہنا پڑا
وجد میں آتا کبھی تو پیڑ کی
ٹہنیوں پر چڑھ کے اکثر جھولتا
تھا میں سالک اک انوکھا دہر میں
جو بھی مسلک مل گیا میں چل پڑا
عالم جبروت کا ساکن تھا میں
عالم سفلی میں کیسے آ گیا
حادثے کو روکنا تھا اس لئے
راستے پر ہو گیا جا کر کھڑا
بند کرتے تھے کبھی تھے کھولتے
روپ دروازے کا مجھ کو کیا ملا
لیٹ جاتا پیٹھ کے بل فرش پر
دیکھ لیتا جب بھی آتے میں قضا
جو سماوی تھے قمر پر جا بسے
میں تھا خاکی دہر میں ہی رہ گیا
مجھ کو دینا تھا فگارؔ ان کا جواب
چٹھیوں کا سامنے انبار تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.