آئے بھی وہ تو شکل دکھا کر چلے گئے
آئے بھی وہ تو شکل دکھا کر چلے گئے
دل کی لگی کو اور بڑھا کر چلے گئے
بیمار غم کے پاس وہ آ کر چلے گئے
بگڑی ہوئی تھی بات بنا کر چلے گئے
ہاں اے نگاہ شوق بتا تو کہاں رہی
وہ گوشۂ نقاب اٹھا کر چلے گئے
گو میکدے میں پی بھی رہے تھے جناب شیخ
ہم تو یہی کہیں گے کہ آ کر چلے گئے
اے جذب دل بتا تو سہی تجھ کو کیا ہوا
کل جب وہ ہم سے آنکھ بچا کر چلے گئے
اٹھیں گے حشر تک نہ ترے آستاں سے ہم
نا اہل ہی وہ ہوں گے جو آ کر چلے گئے
گرنے لگے جو ان پہ بھی پروانے بار بار
وہ شمع انجمن کو بجھا کر چلے گئے
کچھ ہم صفیر ہو گئے صیاد کا شکار
کچھ خود ہی آشیاں کو جلا کر چلے گئے
آخر یہ کوئے عشق ہے ساحرؔ سنبھل کے چل
لاکھوں یہاں سے ٹھوکریں کھا کر چلے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.