آفت جاں اس پری سے دل لگانا ہو گیا
آفت جاں اس پری سے دل لگانا ہو گیا
اس کو کیا چاہا کہ اک دشمن زمانہ ہو گیا
پاؤں وہ کب آتے تھے اب پاؤں میں مہندی لگی
یہ تو اب ان کے لئے خاصا بہانا ہو گیا
دیکھ لیں گے اس کے درباں کو بھی اب تو کیا کہیں
گر کسی تقریب اس کوچے میں جانا ہو گیا
دل کو پایا ہم نے سینہ میں تڑپتے لوٹتے
گوش زد جب اپنے شعر عاشقانہ ہو گیا
کیا کرے گا خلد کو لے کر وہ بتلا تو سہی
کوچہ سفاک میں جس کا ٹھکانا ہو گیا
خرمن تاب و تواں کے واسطے اے ہم نشیں
غیرت صد برق اس کا مسکرانا ہو گیا
کوہ غم تیرے مریض ہجر نے سر پر دھرا
ناتواں تیرا یہاں تک تو توانا ہو گیا
یاد میں اس زلف مشکیں کی شب فرقت میں عیشؔ
جو گرا آنسو کا قطرہ سنگ دانا ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.