عافیت کہتی ہے پھر ایک ستم گر کو بلائیں
عافیت کہتی ہے پھر ایک ستم گر کو بلائیں
ریگ ساحل کی طرح اپنے سمندر کو بلائیں
جو نظر بھی نہیں آتا اسے دل میں رکھ لیں
وہ جو باہر بھی نہیں ہے اسے اندر کو بلائیں
خار زاروں کا سفر ہے تو پریشانی کیا
آنکھ کو بند کریں اور گل تر کو بلائیں
ہے جو اک عمر سے سمٹا ہوا پس منظر میں
پیش منظر کے لئے پھر اسی منظر کو بلائیں
پھر افق کو ہے وہی چاند سا چہرہ مطلوب
اور ہوائیں بھی اسی زلف معنبر کو بلائیں
راستے بھٹکے ہوئے قدموں کو آوازیں دیں
سیپیاں موج میں گھلتے ہوئے گوہر کو بلائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.