آفریں وقت تصور آہ کی تاثیر کو
آفریں وقت تصور آہ کی تاثیر کو
کروٹیں لاکھوں بدلوائیں تری تصویر کو
دیکھ او ناوک فگن شوق دم نخچیر کو
حسرت زخم جگر کھا کھا گئی ہے تیر کو
سمجھو دستاویز زخم عاشق دل گیر کو
کب مٹا سکتے ہو اپنے ہاتھ کی تحریر کو
زلف کے مضموں سے ہے ہر بات میں پیچیدگی
تم ہی سلجھاؤ مری الجھی ہوئی تقریر کو
عین غفلت تھی کہ مر کر بھی نہ کچھ حاصل ہوا
زندگی سمجھے ہوئے تھے خواب بے تعبیر کو
کیا نہ ہوگا خوں بہا دینے میں بھی خوف خدا
حشر کے دن کیا کرو گے رنگ کی تغییر کو
وہ سنگھا کر زلف مشکیں ہوش میں لائے مجھے
سانپ نے چوسا ہے اپنے زہر کی تاثیر کو
موت کا آنا مقدم ہے بشر کے واسطے
اور میں کچھ کہہ نہیں سکتا تری تاخیر کو
ہو کشش تھوڑی اگر پھر اوج و پستی کچھ نہیں
ذرہ نے کھینچا ہے کتنا مہر کی تنویر کو
میں وہ وابستۂ صحرا ہوں کہ گر روکے مجھے
جیب میں رکھ لوں اٹھا کر خار دامن گیر کو
آپ کی ہے نیک نامی اور مری بد نامیاں
آپ کی شہرت سے کیا نسبت مری تشہیر کو
زلف کے پھندوں کو کھولو پھر دم شعلہؔ رکا
کیوں گلے میں گھونٹتے ہو جان بے تقصیر کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.